Language:

Search

خدیجہ اور مائیکل 5

  • Share this:

بلڈنگ کے اندر ہال میں کافی طلبا تھے جو مائیکل اور خدیجہ کو دیکھ کر جہاں تھے وہیں رک گئے۔ مائیکل اور خدیجہ کی کوشش تو یہ تھی کہ جلدی سے ان طلبا کے پاس سے گزر کر کلاس میں داخل ہو جائیں لیکن چونکہ وہ دونوں ہی فائن آرٹس کے سٹوڈنٹ نہیں تھے اس لئے انہیں رک رک کر مختلف کلاسز کے باہر لگی تختیوں پر سے نمبر پڑھنا پڑ رہے تھے۔
بلڈنگ سے ناواقفیت کی وجہ سے کمرہ نمبر تلاش کرنے میں جو دیر ہوئی اس کا خمیازہ انہیں ایک ریکوئسٹ کی صورت میں بھگتنا پڑا۔
"خدیجہ کیا آپ مجھے اپنے ممے دکھانا پسند کریں گی؟" یہ عامر تھا جسے پروگرام کے اصولوں کا اچھی طرح علم تھا۔ خدیجہ کو اس کی فرمائش پر عمل کرنا ہی تھا۔
خدیجہ نے اپنا رخ عامر کی طرف کر لیا تاکہ وہ اس کی چھاتیوں کو اپنی پسند کے مطابق دیکھ سکے۔ اور عامر نے دیکھا بھی خوب غور سے۔ اس کا انداذہ اس کی پینٹ میں ابھار سے ہو رہا تھا جسے چھپانے کی اس نے کوئی کوشش نہیں کی۔ خدیجہ کو بھی صاف نظر آ رہا تھا کہ یقیناً پینٹ کے اندر اس کا لن کھڑا ہو گیا ہے۔
"بہت پیارے ممے ہیں آپ کے خدیجہ۔" عامر نے تعریف کی۔
"شکریہ عامر۔" خدیجہ کو اپنے مموں کی تعریف پر شکریہ ادا کرنا کچھ عجیب سا لگا لیکن اگر کوئی تعریف کرے تو جوابا اس کا شکریہ ادا کرنا بھی پروگرام کا ایک اصول تھا۔
عامر کی دیکھا دیکھی کچھ اور طلبا بھی وہاں اکٹھے ہونے لگے تاکہ خدیجہ کی چھاتیوں کو دیکھ سکیں۔
"خدیجہ اگر آپ مائنڈ نہ کریں تو اپنے ہاتھوں سے ممے اٹھا کر دکھا دیں۔ یقین مانیں اٹھا کر یہ ممے اور بھی اچھے لگیں گے۔"
عامر نے خدیجہ سے کہا۔
ہر کسی کو ایک ہی فرمائش کی اجازت تھی لیکن فرمائشی پوز میں تبدیلیاں کروانا بہرحال فرمائش کرنے والے کا حق تھا۔
خدیجہ نے ناک بھوں چڑھائی لیکن پرس نیچے رکھ کر دونوں ہاتھوں سے اپنی دونوں چھاتیاں پکڑ کر اٹھا لیں جیسے وہ واقعی عامر کو اپنی چھاتیاں دکھانا چاہتی ہو۔ اس کے چہرے پر البتہ شرم کے آثار تھے۔
"واؤ۔ کیا زبردست لگ رہے ہیں تمہارے ممے۔" عامر کی پینٹ کا ابھار کچھ اور بڑھ گیا تھا۔
"اور دیکھو تو تمہارے نپلز بھی سخت ہوتے جا رہے ہیں۔"
خدیجہ نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا ایک دن وہ فائن آرٹس بلڈنگ میں کسی انجان لڑکے کی فرمائش پر یوں اپنے ممے پکڑ کر دکھائے گی۔ دکھاتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔
عامر کی نظریں خدیجہ کے مموں سے نیچے ہوتی اس کی پھدی پر چلی گئیں۔ پہلے اس نے سوچا کہ خدیجہ سے کہے کہ اپنے ہاتھ سے پھدی ذرا کھول کر دکھائے لیکن اسے ڈر تھا کہ یہ کچھ زیادہ ہی بولڈ فرمائش تھی اس لئے اس نے محض ٹانگیں کھولنے کی فرمائش پر ہی اکتفا کیا۔
"خدیجہ کیا آپ اپنی ٹانگیں تھوڑی کھول سکتی ہیں تاکہ ہم ذرا بہتر طریقے سے دیکھ سکیں۔"
جتنی خدیجہ کی کوشش تھی کہ ایسی سچویشن سے بچا جائے، اتنی ہی وہ بے چاری پھنس گئی تھی۔ ایک تو پورا دن کلاسز ننگی اٹینڈ کرنا ہی اتنی بڑی مصیبت تھی اوپر سے یہ سب کچھ۔ کلاس میں کم از کم یہ تو تسلی تھی کہ سیٹ پر بیٹھنے سے اور ڈیسک کی وجہ سے اس جا نچلا دھڑ سب کی نظروں سے اوجھل ہو گا اور صرف ممے ہی سب کو دکھائی دیں گے۔ یہاں تو وہ پوری کی پوری ہی سب جو دکھائی دے رہی تھی۔
خدیجہ نے پر امید نگاہوں سے سیکیورٹی گارڈ کی جانب دیکھا جس نے آگے سے کندھے اچکا دئے جیسے کہہ رہا ہو کہ یہ تو کرنا ہی ہو گا۔ ویسے بھی عامر نے کوئی نیا پوز اختیار کرنے کو تو کہا ہی نہیں تھا۔ وہ تو اسی پوز میں تبدیلیاں کروا رہا تھا۔ خدیجہ نے گہری سانس لی اور ٹانگیں کھول کر کھڑی ہو گئی۔ ممے ابھی تک اس نے ویسے ہی اٹھا رکھے تھے۔ ٹانگیں کھولتے ساتھ ہی مجمع سے اوہ واؤ امیزنگ جیسی آوازیں آنے لگیں اور طلبا ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر خدیجہ کی پھدی دیکھنے کی کوشش کرنے لگے۔ اگرچہ بالوں کی موجودگی کی وجہ سے اس کی پھدی کا دہانہ چھپا ہوا تھا لیکن ٹانگیں کھولنے پر وہ چھپا نہ رہ سکا تھا۔
مجمع میں موجود کچھ لڑکیاں اپنے بوائے فرینڈز کو کھینچنے لگیں جیسے وہ انہیں خدیجہ کی پھدی دیکھنے سے روکنا چاہتی ہوں۔ باقی لڑکیاں بس ویسے ہی دیکھے جا رہی تھیں۔ لڑکے البتہ اس کوشش میں تھے کہ اپنے اپنے لن کی سختی کو پتلونوں میں ہی چھپا سکیں۔
مائیکل کو البتہ خدیجہ کا احساس تھا۔ اسے اندازہ تھا کہ اس کی باری بھی آ سکتی ہے لیکن اس کے باوجود وہ خود کو خدیجہ کا ننگا بدن دیکھنے سے نہ روک سکا۔ وہ چاہتا تو منہ پھیر کر کھڑا ہو جاتا لیکن تھا تو وہ بھی ایک لڑکا اور کوئی بھی جوان لڑکا بھلا کیسے خود کو روک سکتا ہے جب ایک جوان سیکسی لڑکی اپنے ممے ہاتھوں میں اٹھائے ہو اور اسکے گلابی نپلز کسی کیک کی فروسٹنگ کی مانند لگ رہے ہوں اور جب کہ اس نے ٹانگیں بھی کھول رکھی ہوں کہ سب اس کی پھدی کا اچھے سے نظارہ کر لیں۔ کیا ایسا ممکن تھا کہ کوئی ایسے منظر سے نظریں پھیر لے۔ ہر گز نہیں۔ مائیکل خدیجہ کے بائیں جانب تھا اور دل تو اس کا کر رہا تھا کہ سامنے سے باقی طلبا کی طرح خدیجہ کو دیکھے لیکن اسے پتہ تھا کہ اگر اس نے ایسا کیا تو خدیجہ ناراض ہو جائے گی۔
ایسے گھورنے کا مائیکل پر بھی وہی اثر ہوا جو باقی لڑکوں پر ہو رہا تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ باقی سب لے لن ان کی پتلونوں میں تھے اور مائیکل کا لن سب کے سامنے۔ اس کا چھوٹا سا لن اب انگڑائی لے کر اپنے خول سے نکلنے لگا تھا۔ مائیکل کو اتنی پرواہ نہیں تھی کیونکہ اسے توقع تھی کہ تھوڑا سا سخت ہونے سے طلبا میں یہ تاثر زائل ہو جائے گا کہ مائیکل کا لن بہت چھوٹا ہے لیکن جب لن کھڑا ہونا شروع ہو جائے تو اسے روکنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
سب سے پہلے فرسٹ ائیر کی طالبہ مریم نے نوٹس کیا۔ شاید نوٹس تو اور طلبا نے بھی کیا ہو لیکن مریم پہلی لڑکی تھی جس نے بھانڈا پھوڑا۔
"واؤ مائیکل۔" مریم کی آواز میں شوخی تھی۔ اب لڑکیوں میں بھی طرح طرح کی سرگوشیاں شروع ہو گئیں۔ کئی لڑکیوں نے پہلی بار حقیقی زندگی میں لن دیکھا تھا۔ ان کی نگاہوں میں تجسس تھا۔
"مائیکل کیا آپ اسے فل کھڑا کر سکتے ہیں؟" مریم نے شاید مائیکل کو تنگ کرنے کا تہیہ کر لیا تھا۔ شاید وہ اتنی معصوم نہیں تھی جتنی نظر آتی تھی۔ اس نے اپنے ہاتھ اپنی کمر پر رکھ کر کولہے مٹکائے جیسے یہ ظاہر کر رہی ہو کہ اس نے کبھی لن دیکھا ہی نہیں۔
"پلیز مائیکل ۔ میں نے آج تک فل کھڑا ہوا لن نہیں دیکھا۔ میری خواہش پوری کر دو " مریم تو نان سٹاپ فرمائشیں کرتی چلی جا رہی تھی۔
مائیکل کو اب اپنے ہاتھ کی ضرورت نہیں تھی۔ اس کا لن ایک دم تن گیا۔ مجمع کی توجہ اب مائیکل کی طرف تھی۔ خدیجہ نے جب دیکھا کہ سب مائیکل کو دیکھ رہے ہیں تو اس نے ٹانگیں سمیٹ کر ممے چھوڑ دئیے۔ ویسے بھی آخر کتنی دیر تک وہ ایسے کھڑی ہوتی۔ کوئی حد ہوتی ہے۔
مائیکل کے لن پر ایک نظر ڈالنے کیلئے لڑکیاں آگے آگے ہو رہی تھیں۔ ایسے کالج ایونٹ کا تو کسی نے بھی تصور تک نہیں کیا تھا لیکن سب کو مزہ بہت آ رہا تھا۔ مائیکل کے لن کا سائز کچھ زیادہ بڑا تو تھا نہیں۔ فل کھڑا ہو کر بھی چھوٹا ہی لگ رہا تھا۔ جن لڑکیوں نے لن پہلی بار دیکھا تھا وہ تو متاثر تھیں لیکن جن لڑکیوں کے بوائے فرینڈز تھے ان کے ہلکے ہلکے قہقہے اس بات کی غمازی کر رہے تھے کہ انہیں مائیکل کا لن کافی چھوٹا لگ رہا تھا۔
مریم نے جھک کر اپنے گھٹنوں پر ہاتھ رکھے اور اپنا منہ مائیکل کے لن کے قریب لے جا کر غور سے دیکھنے لگی۔ مریم کی اس حرکت پر مجمع میں سے کئی اوہ کی آوازیں اٹھیں۔ سیکیورٹی گارڈ مائیکل کے قریب آ گیا۔
"مائیکل تمہارا لن بہت کیوٹ لگ رہا ہے۔" مریم کی بات بیک وقت تعریف بھی ہو سکتی تھی اور انسلٹ بھی۔ مائیکل نے البتہ اس کو منفی لیا اور اسے لگا مریم اس کے لن کے سائز کا مذاق اڑا رہی ہے۔
"جب اتنا سخت ہوتا ہے تو درد تو نہیں ہوتا۔" مریم کو اچھی طرح معلوم تھا کہ درد نہیں ہوتا لیکن وہ مائیکل کو تنگ کرنا چاہتی تھی۔
"نہیں تو" مائیکل نے جواب دیا۔
"مائیکی اگر تم لن ہاتھ میں پکڑ کر دکھا دو مجھے بہت اچھا لگے گا۔" مریم نے جھکے جھکے نظریں اٹھا کر مائیکل کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے نئی فرمائش داغ دی۔
مائیکل تو خود اپنا لن پکڑنا چاہتا تھا۔ ہاتھ میں پکڑ کر سب کی نظروں سے چھپانے سے بہتر اور کیا ہو سکتا تھا۔ خدیجہ کی نظروں میں مائیکل کیلئے ہمدردی تھی۔ جب مائیکل نے ہاتھ سے اپنا لن پکڑا تو خدیجہ نے اپنے دائیں ہاتھ سے اس کا بازو تھام لیا جیسے ہمدردی کا اظہار کر رہی ہو لیکن مائیکل نے اس کا کچھ اور ہی مطلب لیا۔ ایک ننگی لڑکی جب کسی لڑکے کے جسم کو چھوئے اور وہ بھی اس وقت جب لڑکے نے اپنا فل کھڑا ہوا لن تھام رکھا ہو تو لڑکا بھلا خود پر قابو کیسے رکھ پائے۔ مائیکل نے اپنا ہاتھ لن پر پھیرنا شروع کر دیا۔
مجمع میں موجود لڑکیوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جب انہوں نے مائیکل کو اپنا لن سہلاتے دیکھا۔
"اوہ مائیکل۔ اچھا تو تم ایسے کرتے ہو جب اپنے لن سے کھیلتے ہو؟" مریم نے پوچھا۔
"ٹائم اوور" اس سے پہلے کہ بات مزید آگے بڑھتی، سیکیورٹی گارڈ نے آگے بڑھ کر سب کو روک دیا۔ ٹائم واقعی کافی ہو چکا تھا اور کلاس کا وقت شروع ہونے میں صرف ایک منٹ باقی تھا۔ سیکیورٹی گارڈ کو یہ تو پتہ تھا کہ کلاس کے باہر مٹھ مارنا پروگرام کے تحت منع ہے لیکن یہ نہیں پتہ تھا کہ اگر کوئی محض مٹھ مارنے کی ایکٹنگ کرے تو کیا یہ بھی منع ہے یا نہیں۔ ویسے اس نے بھی دل میں شکر ادا کیا تھا کہ وقت ختم ہو گیا ورنہ جیسی صورتحال تھی کچھ پتہ نہیں تھا کہ کیا ہو جاتا۔
انسانی خاکہ بنانے کی کلاس
انسانی خاکہ کی ڈرائنگ بنانا فائن آرٹس کی سب سے آسان کلاس تھی۔ فائن آرٹس کے پورے ڈیپارٹمنٹ میں صرف چار ٹیچرز تھے جن کی سربراہ مسز رابعہ خاور تھیں۔ ان کے انڈر مسز جینیفر، مسز پارکر اور مسز کین فیلڈ تھیں۔
مسز رابعہ انسانی خاکہ کہ ڈرائنگ کی کلاس خود پڑھاتی تھیں لیکن باوجود انتہائی کوشش کے آج تک کسی طالب علم کو بنا لباس کے پوز کرنے پر رضامند کرنے میں ناکام رہی تھیں۔ انسانی خاکہ انسانی جسم دیکھے بغیر بنانا ایک بے کار ایکسرسائز تھی لیکن مسز رابعہ کے پاس اور کوئی آپشن بھی تو نہیں تھی۔ انہیں معلوم تھا کہ دوسرے سکول ایسی کلاسز کیلئے مردانہ اور زنانہ ماڈلز ہائر کرتے ہیں جو کلاس میں برہنہ پوز بنا کر باقی طلبا کو ڈرائنگ بنانے کا موقع دیتے ہیں لیکن ان کے کالج نے ان کے ڈیپارٹمنٹ کو اتنا فنڈ نہیں دیا تھا کہ وہ باہر سے کسی کو ہائر کر سکتیں۔
مسز رابعہ پروگرام کے چند بڑے حامیوں میں سے تھیں اور انہوں نے ہی یہ تجویز دی تھی کہ پروگرام کی پہلی کلاس انسانی خاکہ کی رکھی جائے۔ ان کیلئے یہ سنہری موقع تھا کیوں کہ ان کی کلاس پنسل سے سکیچ بنانے کی تعلیم دیتی تھی اور بعد میں آنے والی کلاسز میں آئل اور دیگر پینٹنگز سکھائی جاتی تھیں۔
خدیجہ اور مائیکل دونوں ہی ہال وے سے کلاس میں آنے پر شکر گزار تھے۔ ایک وجہ تو یہ تھی کہ ہال وے یعنی راہداری میں طلبا کا ہجوم انہیں مختلف پوز بنانے کی فرمائشیں کئے جا رہا تھا جو ان کیلئے باعث شرمندگی تھا۔ دوسری وجہ انکی خوشی کی یہ تھی کہ اس کلاس میں کل آٹھ بچے تھے لہٰذا کسی مجمع کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ مسز رابعہ ویسے بھی ڈسپلن پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتی تھیں اس لئے کسی بدمزگی کی توقع نہیں تھی۔
"آ جائیں اندر آ جائیں ۔ موسٹ ویلکم بچو۔ " مسز رابعہ نے انتہائی گرم جوشی سے خدیجہ اور مائیکل کو کلاس میں ویلکم کیا۔
پہلے خدیجہ اندر داخل ہوئی اور اس کے پیچھے پیچھے مائیکل اپنا لن چھپائے اندر آ گیا۔ اس کا لن ابھی تک فل کھڑا ہوا تھا۔
"مجھے آپ دونوں کو اپنی کلاس میں دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔" انہوں نے خدیجہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر گرم جوشی سے دباتے ہوئے کہا اور پھر اپنی توجہ مائیکل کی طرف کی لیکن جب اسے ایسے اکڑے لن کے ساتھ دیکھا تو ہاتھ ملانے سے ہچکچائیں۔ ان کا ہاتھ بے اختیار اپنے منہ کی طرف چلا گیا۔ پھر انہوں نے کلاس کے طلبا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: "لگتا ہے مائیکل تو ہم سب سے زیادہ خوش ہے۔" مسز رابعہ کی بات پر کلاس میں موجود لڑکیاں اپنے قہقہے نہ دبا سکیں۔
مائیکل نے شرمندہ سے انداز میں گہری سانس لی۔ اس کا دل تو کر رہا تھا دونوں ہاتھوں سے لن چھپا لے لیکن یہ پروگرام کے اصولوں کے خلاف تھا۔ پرنسپل آفس میں اس نے جس بات کا اعادہ کیا تھا بد قسمتی سے وہ اس پر عمل کرنے سے قاصر رہا تھا۔ پہلی ہی کلاس میں اس کا لن اکڑ کر کھڑا ہو گیا تھا اور اب کلاس کی سب لڑکیوں کی توجہ کا مرکز تھا۔ وہ یہ سوچے بنا نہ رہ سکا کہ پہلی کلاس میں یہ حال ہے تو باقی کلاسز میں کیا ہو گا۔ چھپانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
"سوری مسز رابعہ ۔ میں نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا۔" مائیکل کے لہجے میں شرمندگی تھی۔
مسز رابعہ البتہ بالکل بھی پریشان نہیں تھیں۔ ان کے نزدیک یہ ایک معمولی بات تھی جس کا تذکرہ بورڈ میٹنگ میں بھی ہوا تھا۔ وہ اس معمولی بات کو اپنی کلاس کیلئے اپنا پلان خراب کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی تھیں۔ انہوں نے آہستگی سے اپنا بازو مائیکل کے کندھے پر رکھ دیا اور کہنے لگیں:
"مائیکل تمہیں شرمندہ ہونے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں۔ ہمیں پروگرام کے اصولوں کا علم ہے اور مجھے تو یہی توقع تھی کہ تم جیسا جوان لڑکا زیادہ دیر تک خود پر قابو نہیں رکھ سکے گا۔"
مسز رابعہ کے لہجے سے مامتا چھلک رہی تھی۔ ان کا سٹائل ہی یہ تھا طلبا سے بات کرنے کا۔ وہ شادی شدہ تھیں لیکن اولاد نہ ہونے کے سبب کلاس کے بچوں کو اپنے بچوں ہی کی طرح ٹریٹ کرتی تھیں۔
"ہم ابھی اس کا علاج کرتے ہیں" مسز رابعہ یہ کہہ کر فوراً ذرا سا جھکیں اور مائیکل کا سخت لن ہاتھ میں پکڑ لیا۔ مائیکل کے تو فرشتوں کو بھی نہیں پتہ تھا کہ یہ ہونے والا ہے۔ وہ ہڑبڑا کر ایک قدم پیچھے ہٹ گیا لیکن مسز رابعہ نے اس کے لن پر اپنی گرفت برقرار رکھی اور لن پکڑے پکڑے کلاس کے بچوں کو مخاطب کر کے کہنے لگیں:
"بچو، جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہے کہ پروگرام میں شریک لڑکوں کو کلاس کے پہلے پانچ منٹ میں ریلیف دینے کی اجازت ہے۔ "
مسز رابعہ اپنا ہاتھ مائیکل کے لن پر آگے پیچھے پھیرنے لگیں۔ کلاس کی لڑکیوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جب انہوں نے مسز رابعہ کو مائیکل کا لن یوں سہلاتے دیکھا۔ انہوں نے تو کبھی خواب میں بھی اس بات کا تصور نہیں کیا تھا کہ ایک دن مسز رابعہ کلاس کے سامنے کسی لڑکے کی مٹھ ماریں گی۔
"مسز رابعہ پلیز۔ میں خود ہی اس کا بندو بست کر لوں گا۔" مائیکل نے بڑی مشکل سے ہمت مجتمع کی اور مسز مائیکل سے کہا لیکن اس کی بات پر کلاس میں ایک زوردار قہقہہ پڑا۔
مسز رابعہ نے مائیکل کے لن سے ہاتھ ہٹا لیا۔ انہیں لگا شائد انہوں نے کوئی غلطی کر دی ہے۔
"ٹھیک ہے مائیکل ۔ اگر تم خود مٹھ مارنا پسند کرو گے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔"
مائیکل کا چہرہ شرم سے لال ہو گیا۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں تھا۔ وہ کبھی ان لڑکیوں اور مسز رابعہ کے سامنے مٹھ مارنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔
"نہیں نہیں میرا مطلب تھا کہ یہ خود ہی کچھ دیر میں نرم پڑ جائے گا۔ "
مسز رابعہ مائیکل کی شرمندگی کی وجہ سمجھ چکی تھیں۔ واقعی کسی کے سامنے خود لذتی شرمندگی کا باعث ہی تو ہے۔ انہوں نے خود بھی تو کبھی ایسا نہیں کیا تھا۔ ایک مرتبہ شوہر کی خواہش پر انہوں نے کوشش کی تھی لیکن باعث شرمندگی وہ نہیں کر پائی تھیں۔ جب وہ شوہر کے سامنے نہ کر پائیں تو مائیکل سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اجنبیوں کے سامنے مشت زنی کرے، بے وقوفی سے کچھ کم نہیں تھی۔
مائیکل کا لن البتہ جتنا سخت نظر آ رہا تھا، لگتا نہیں تھا کہ خود بخود جلد نرم ہو گا۔ مسز رابعہ کو اس کا لن نرم حالت میں چاہئے تھا۔ ان کی مامتا نے ایک بار پھر جوش مارا اور انہوں نے پھر سے مائیکل کا لن پکڑ لیا اور ہلانے لگیں۔
"پریشان نہ ہو مائیکل ۔ بس کچھ منٹ کی بات ہے "
مسز رابعہ کے لہجے میں ایسا سکون تھا جیسے وہ مٹھ نہیں بلکہ تھرمامیٹر سے مائیکل کا ٹمپریچر چیک کر رہی ہوں۔
"میں یہ کئی بار کر چکی ہوں۔ میرے شوہر کو تو اکثر اس کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ یہ بالکل قدرتی بات ہے۔"
مائیکل کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ مسز رابعہ کی بات کا کیا جواب دے۔ آخر کو وہ ٹیچر تھیں اور مائیکل سٹوڈنٹ۔ سٹوڈنٹ کیلئے ٹیچر کی بات ماننا ہی بہتر طریقہ ہے۔
 

Quratulain Tahira

Quratulain Tahira