Language:

Search

مریم شاہ 1

  • Share this:

یونیورسٹی میں من پسند مضمون میں داخلہ مل جانا اچھی بات ہے لیکن یونیورسٹی کی فیس پوری کرنا ایک بہت بڑا مسلہ۔ سائنس کا طالب علم ہونے کے ناطے مجھے تو یہ بھی امید نہیں تھی کہ تعلیم مکمل ہوتے ساتھ کوئی اچھی نوکری مل جائے گی کیونکہ سائنس کے طلبا کو عموماً کافی نچلے درجے سے کیرئیر کا آغاز کرنا ہوتا ہے۔ میرے والدین فیس ادا کرنے میں میری مدد تو کر دی لیکن اب میں روز روز ان سے پیسے تو نہیں مانگ سکتا تھا۔ رہائش کا مسلہ ہاسٹل نے حل کر دیا لیکن باقی اخراجات کیلئے میں نے سوچا کوئی پارٹ ٹائم نوکری کر لوں۔
کافی خواری کے بعد ایک ریسٹورنٹ میں جاب ملی جہاں ہفتے میں پانچ دن دوپہر کے بعد کی شفٹ تھی اور ہفتے کو پورا دن کام کرنا ہوتا تھا۔ ریسٹورنٹ کافی پوش علاقے میں واقع تھا اور ہم اپنے وی آئی پی کسٹمرز کو شراب تک مہیا کرتے تھے۔ ریسٹورنٹ میں کیبن بھی بنے ہوئے تھے جہاں پرائویسی کے متمنی افراد براجمان ہوتے تھے۔ میرا کام کاؤنٹر کے پیچھے کھڑے ہو کر آرڈر لینا اور پھر آرڈر سرو کرنا بھی تھا جب کچن سے چیزیں بن کر آ جائیں۔ میرے اوپر ایک لڑکی تھی جو خود کو مینیجر سمجھتی تھی حالانکہ اس کا عہدہ محض اسسٹنٹ مینیجر کا تھا۔ اس کا نام فاخرہ تھا۔ تھی وہ بہت خوبصورت۔ لمبے کالے بال، ماڈلز جیسا دلکش چہرہ اور فگر بھی کوک کی پرانی بوتل جیسا۔ میرا دل تو کرتا تھا کہ اسے ڈیٹ پر لے جاؤں لیکن وہ شادی شدہ تھی اور اس کا شوہر بھی کافی تگڑا تھا۔ ایک دو بار ریسٹورنٹ آیا تو اسے دیکھ کر میں ایک مرتبہ تو ڈر ہی گیا لیکن پھر بھی میں نے فاخرہ کو دبے دبے الفاظ میں چھیڑنا نہ چھوڑا۔
اس سے پہلے کہ آگے چلیں، پہلے اپنا تعارف کروا دوں۔ میرا نام عثمان ہے۔ عمر تئیس سال، قد پانچ فٹ دس انچ اور وزن تقریباً ستر کلو گرام۔ ماسٹرز کی ڈگری کیلئے یونیورسٹی میں داخلہ لیا ہے۔ پڑھائی کے علاوہ میری کھیل میں بھی بہت دلچسپی ہے اور کرکٹ میرا پسندیدہ کھیل ہے لیکن یونیورسٹی میں سکوائش ہر روز کھیلتا ہوں۔ اس کے علاوہ ورزش میرا معمول ہے اور جب مقابلے ہوتے ہیں تو میں ریس میں ضرور حصہ لیتا ہوں۔ لڑکیوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں مجھے کبھی مشکل پیش نہیں آئی۔ کالج میں کئی لڑکیاں میری دوست تھیں اور یونیورسٹی میں بھی کوئی لڑکی پھنسانا میرے لئے کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ لیکن مجھے کبھی بھی زیادہ عمر کی عورتوں میں کبھی کوئی دلچسپی محسوس نہیں ہوئی تھی۔
یہ دلچسپی تب شروع ہوئی جب مجھے نئی نوکری پر ایک مہینہ ہونے کو تھا۔ اکتوبر کا مہینہ تھا اور ریسٹورنٹ میں شام کے وقت کافی رش ہوا کرتا تھا۔ ایک دن خلاف معمول رش کم تھا بلکہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ جب رش کم ہوتا تھا تو میں جان بوجھ کر فاخرہ سے چھیڑ چھاڑ کرتا رہتا تھا۔ وہ بھی میری چھیڑ چھاڑ پر برا نہیں مناتی تھی۔
اس دن فاخرہ کچن میں تھی اور میں کاؤنٹر پر۔ کچن سے خرم فرائیڈ چکن کی پلیٹ اٹھا کر لایا اور آواز لگائی: "کیبن نمبر چھتیس کیلئے"
میں حیران تھا کہ وہاں تو کوئی بھی نہیں تھا۔ خرم سے پوچھا تو اس نے بتایا جب میں واشروم گیا تھا تب فاخرہ نے کسٹمر سے آرڈر لیا تھا۔
"اس کے ساتھ وہسکی بھی لے جانا" خرم نے آنکھ مار کر مجھے کہا اور خود واپس کچن میں گھس گیا۔
میں نے کاؤنٹر کے نیچے سے خفیہ الماری سے وہسکی کی بوتل نکالی اور ایک گلاس میں انڈیل کر ٹرے سجا کر کیبن نمبر چھتیس کی طرف بڑھا۔ یہ کیبن کونے میں تھا اور تنہائی پسند افراد یا جوڑے ہی اسے استعمال کرتے تھے۔ خاموشی سے تو یہی لگ رہا تھا کہ کیبن خالی ہے لیکن اندر داخل ہونے پر معلوم ہوا کہ ایک خاتون میز لیپ ٹاپ رکھے کچھ ٹائپنگ میں مصروف ہیں۔
"یہاں رکھ دو ٹیبل پر۔" خاتون نے مجھ سے کہا۔ میں نے فوراً تعمیل کی اور ٹرے ان کے لیپ ٹاپ کے ساتھ رکھ کر سیدھا کھڑا ہو گیا۔
"فرائیڈ چکن اور وہسکی" جانے سے پہلے میں نے مناسب سمجھا کہ انہیں بتا دوں آرڈر میں کیا ہے تاکہ اگر مزید کوئی چیز چاہیے تو وہ بھی لا دوں۔
خاتون نے میری آواز پر ٹائپنگ روک دی اور چہرہ اٹھا کر میری طرف دیکھا۔ میں تو جیسے ہکا بکا ہی رہ گیا۔ اتنا حسین چہرہ۔ خاتون کی عمر میرے اندازے کے مطابق پینتیس برس کے قریب تو ہو گی لیکن ان کا حسن لاجواب تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں کوئی عورت اتنی خوبصورت نہیں دیکھی تھی۔ چہرے پر جھریاں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ لیکن لہجے اور رکھ رکھاؤ کے لحاظ سے مجھے لگا کہ وہ کافی میچور خاتون ہیں۔
"شکریہ" ان کی آواز نے میری سوچوں کا تسلسل توڑ ڈالا اور میں کھسیانی سی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے لوٹ آیا۔
اصولاً تو مجھے آدھے گھنٹے بعد برتن سمیٹنے کیبن میں جانا چاہیے تھا لیکن میری ہمت نہیں پڑی ان کا سامنا کرنے کی۔ آخرکار پینتالیس منٹ بعد وہ خود ہی باہر آ گئیں اور فاخرہ نے ان کا بل جمع کیا۔ جاتے جاتے وہ فاخرہ کی طرف دیکھ کر مسکرائیں اور میری طرف بھی ایک اچٹتی سی نگاہ ڈال گئیں۔
"تھینک یو میڈم" میں نے بڑبڑانے کے سے لہجے میں کہا جو فاخرہ نے بخوبی سن لیا۔ وہ ہنس پڑی اور کہنے لگی:"یہاں تمہاری دال گلنی عثمان۔ یہ نک چڑھی آنٹی تمہیں کوئی ٹپ نہیں دے گی۔ اسے تو شکریہ کہتے بھی موت پڑتی ہے۔"
"یہ پہلے بھی یہاں آتی ہیں؟" میں نے فاخرہ سے پوچھا۔
"تم نے نہیں دیکھا؟ مہینے میں دو چکر تو لگاتی ہی ہے اور ہمیشہ اسی کیبن میں بیٹھتی ہے۔"
میں نے سر جھٹکا اور فاخرہ کو دیکھ کر سوچنے لگا کہ کاش اسے میں یہاں سے کہیں دور لے جا سکتا اور خوب پیار کر سکتا۔ کچھ ہی دیر میں شفٹ ختم ہو گئی اور میں وہاں سے نکل کھڑا ہوا۔
________________________________________________
تقریباً تین ہفتے بعد وہ خاتون دوبارہ ریسٹورنٹ آئیں۔ بدھ کا دن تھا اور کسٹمرز مناسب تعداد میں موجود تھے۔ دروازے سے داخل ہوتے ہی میں نے انہیں دیکھ لیا تھا۔ کندھے پر بڑا سا پرس لٹکائے وہ میرے سامنے سے گزر کر اپنے من پسند کیبن کی طرف بڑھ گئیں۔ ان کے انداز سے لگتا تھا کہ ان کا تعلق کسی امیر خاندان سے ہے۔ کپڑوں میں بھی جدید طرز نمایاں تھی۔ انہوں نے بزنس سوٹ پہن رکھا تھا اور پنڈلیاں تقریباً ننگی ہی تھیں۔
"آ گئی پھر سے۔" فاخرہ نے مجھ سے کہا: "جاؤ جا کر اس کا آرڈر لو۔ میں اس کے منہ لگنا چاہتی آج"
ان خاتون سے دوبارہ سامنا ہونے کے امکان پر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ میں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور سوچا کیا ہو گیا ہے مجھے۔ یہ بھی بس ایک کسٹمر ہی تو ہے۔
اس بار بھی وہ اسی کرسی پر بیٹھی ٹائپنگ کر رہی تھیں۔
"میڈم کیا پسند کریں گی؟" میں نے اپنی آواز میں کانفیڈنس لاتے ہوئے ان سے پوچھا۔
ان کے ہاتھ لیپ ٹاپ پر ایک دم رک گئے اور چہرہ اوپر کر کے میری طرف دیکھ کر بولیں: "آج کیا ہے مینو میں؟"
ایک مرتبہ پھر میں ان کے حسن میں کھو گیا۔ ان کی نظریں مجھے اپنے اندر گھستی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔ ان کے گال، ان کے بھرے بھرے ہونٹ اور اوپر سے سرخ رنگ کی لپ اسٹک مجھے پاگل کئے دے رہی تھی۔
میں نے انہیں مینو بتایا۔
وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئیں اور بدستور میری طرف دیکھتی رہیں۔
"لزانیہ کیسا ہے یہاں کا؟" انہوں نے پوچھا۔
آج تک کسی کسٹمر نے مجھ سے یہاں کی کسی چیز پر رائے نہیں مانگی تھی۔ میں بتانے سے جھجک رہا تھا۔ جھوٹ میں بولنا نہیں چاہتا تھا اور ان خاتون سے تو بالکل بھی نہیں۔
"اتنا اچھا نہیں ہے ویسے" میں نے سچ کہہ دیا۔
پہلی بار خاتون کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی اور مجھے ان کے سفید دانتوں کی ہلکی سی جھلک نظر آئی۔ انہوں نے دونوں ہاتھ میز پر الٹے رکھے ہوئے تھے اور کسی انگلی میں انگوٹھی نہیں تھی۔ ناخنوں پر البتہ جامنی سے رنگ کی نیل پالش لگی ہوئی تھی۔
"اچھا نہیں ہے کیا مطلب۔ کھل کر بتاؤ نا" انہوں نے پوچھا۔
"دراصل ہمارا شیف کافی سارا اکٹھا ہی بنا دیتا کے اور چونکہ ذیادہ بکتا نہیں ہے اس لئے ہم پرانا ہی اوون میں گرم کر کے کسٹمرز کو دیتے رہتے ہیں۔" میں نے کھل کر بتا دیا جس سے ان کی مسکراہٹ اور گہری ہو گئی۔
"اچھا تو پھر بتاؤ کیا کھانا چاہئے مجھے؟"
"یہاں کی سلاد بہت اچھی ہے۔ تازہ بنتی ہے لیکن اس سے پیٹ نہیں بھرتا۔ آپ سلاد کے بعد کچھ میٹھا کر لیں"
انہوں نے سر ہلا کر منہ نیچے کیا اور ایک لمحہ سوچ کر مجھے جواب دیا: "ٹھیک ہے پھر سلاد ہی لے آؤ"
"میڈم ڈرنک کونسی لیں گی آپ"
"سلاد کے ساتھ کونسی سہی رہے گی. تم لے آؤ جو بھی تمہارے خیال میں ٹھیک رہے گی۔" انہوں نے پھر سے میری طرف دیکھا اور میرے جسم میں ایک بار پھر سے کرنٹ دوڑ گیا۔
وہ ٹائپنگ میں مشغول ہو گئیں اور میں نے واپس آ کر کچن میں آرڈر کا بتا دیا۔ جب تک آرڈر تیار ہوتا میں نے فاخرہ سے ڈرنک کا پوچھا کہ کون سی ٹھیک رہے گی۔
"جرمن وائن دے دو"
"اچھی ہے نا وہ" میں نے پوچھا۔
"اچھی چھوڑو سب سے مہنگی ہے۔ دیکھتے ہیں کتی کو پسند آتی ہے یا نہیں " فاخرہ اس خاتون سے کافی چالو معلوم ہوتی تھی۔
میں نے ٹرے میں سلاد کا پیالہ اور شراب کا ایک گلاس رکھا اور لے کر کیبن میں آ گیا۔ خاتون اب بھی ٹائپنگ میں ہی مشغول تھیں۔
"رکھ دو وہاں" انہوں نے بغیر سر اٹھائے مجھے کہا۔ مجھے کسی قدر مایوسی ہوئی کیونکہ میں توقع کر رہا تھا کہ وہ کم از کم یہ تو دیکھیں گی کہ میں شراب کون سی ساتھ لایا ہوں۔ میں ٹرے میز پر رکھ کر باہر نکل آیا۔
اس بار میں نے برتن سمیٹنے کیلئے اندر جانے کا فیصلہ کیا تاکہ میٹھے میں بھی انہیں کوئی تجویز دے سکوں۔ آدھے گھنٹے بعد جب میں اندر گیا تو وہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے شراب کی چسکیاں بھر رہی تھیں۔ انہوں نے اپنا کوٹ بھی اتار دیا تھا اور نیچے پہنے ریشمی بلاؤز سے ان کی چھاتیوں کے خدو خال کا اندازہ ہو رہا تھا۔
میں اندر داخل ہوا تو انہوں نے چہرہ اٹھا کر میری طرف دیکھا۔ ان کا چہرہ ہر قسم کے جذبات سے عاری تھا۔
"زبردست ۔ سلاد بہت مزے دار تھی اور شراب کے تو کیا ہی کہنے۔ اس کا نام کیا ہے؟" خاتون نے اپنا گلاس تھوڑا بلند کر کے مجھ سے استفسار کیا۔
"میڈم یہ جرمن شراب ہے جو سلاد کے ساتھ ہی پی جاتی ہے۔"
خاتون میری بات پر ہنس پڑیں جس سے پہلی بار ان کے چہرے کی کرختگی کافی کم ہو گئی۔
"میٹھے میں کچھ لیں گی میڈم" میں نے پوچھا۔
"نہیں بس بل لے آؤ"
میں نے برتن سمیٹے اور جلدی سے واپس رکھ کر بل اور پیمنٹ والی مشین اٹھا کر کیبن میں واپس پہنچا۔ جب میں آیا تو وہ شراب ختم کر چکی تھیں اور کرسی سے اٹھ کر کوٹ پہن رہی تھیں۔ اس سے مجھے ان کے جسم کو نوٹ کرنے کا موقع مل گیا۔ ان کا فگر کافی مناسب تھا۔ ہاتھوں سے بالوں کو کوٹ سے باہر نکال کر کمر پر پھیلاتے ہوئے وہ بہت دلکش لگیں۔ قد میں بھی وہ مجھ سے صرف دو تین انچ ہی چھوٹی تھیں۔
کوٹ پہن کر ایک دم نظریں پھیریں تو مجھے اپنے آپ کو گھورتا ہو پایا۔ میں جھینپ گیا اور نظریں جھکا لیں۔ انہوں نے پرس سے اپنا بینک کارڈ اور پانچ سو کا ایک نوٹ نکالا۔ کارڈ انہوں نے خود ہی مشین پر سے گزار دیا اور نوٹ مجھے تھما کر بولیں: "یہ تمہارے لئے"
میں اتنا بڑا نوٹ لیتے ذرا سا جھجکا لیکن بہرحال لے ہی لیا۔
"بہت شکریہ میڈم"
انہوں نے میری طرف دیکھا اور کندھے اچکا کر بولیں: "تم نے مجھے اتنی اچھی شراب سے متعارف کروایا ہے۔ یہ تمہارا حق ہے۔ تم سٹوڈنٹ لگتے ہو۔"
"جی میں ابھی پڑھ رہا ہوں۔ آپ کو کیسے پتہ؟"
"شکل سے لگ رہا ہے تم بھی بھوکے ہو۔ کونسی یونیورسٹی میں ہو؟ "
میں نے انہیں اپنی یونیورسٹی کا بتایا تو انہوں نے مضمون پوچھ لیا۔ وہ بتایا تو سر ہلا کر اپنا کارڈ پرس میں رکھا اور کہنے لگیں: "تمہارا نام کیا ہے؟"
ان کا انداز ایسا تھا جیسے میں ان کا کوئی اسسٹنٹ ہوں۔ انہیں اپنا نام بتایا تو انہوں نے ہاتھ بڑھا دیا۔
"میں مریم ہوں"
میں نے ان سے ہاتھ ملایا اور چند سیکنڈز کیلئے میرا ہاتھ ان کی خوبصورت انگلیوں سے مس ہوا۔
"اگلی بار جب آؤں گی تو تم نے ہی میرا آرڈر لینا ہے عثمان" یہ کہہ کر وہ تو چلی گئیں لیکن میں مشین اور پانچ سو کا نوٹ تھامے وہیں کھڑا سوچتا رہا کہ یہ مجھے کیا ہو رہا ہے۔
مریم اگلے ہفتے نہیں آئیں۔ اس سے اگلے ہفتے بھی نہیں آئیں اور میں سوچنے لگا کہ نہ جانے دوبارہ انہیں دیکھ بھی پاؤں گا یا نہیں۔ شاید میں انہیں بھولنے کی دانستہ کوشش بھی کرتا اگر وہ ایک دن شدید بارش میں ریسٹورنٹ نہ آتیں۔ اس دن بادل خوب گرج برس رہا تھا اور لگتا تھا جیسے بارش کبھی رکے گی ہی نہیں۔ ایسے میں مریم چھتری تھامے ریسٹورنٹ میں داخل ہوئیں، چھتری بند کی اور سیدھی کاؤنٹر کی طرف آئیں۔
"ہیلو عثمان۔ مجھے وہی سلاد اور وائن چاہیے۔ وائن مجھے ابھی دے دو میں ساتھ ہی لے جاتی ہوں۔ " مریم نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا۔
جب میں گلاس میں وہی جرمن شراب انڈیل رہا تھا تو فاخرہ مجھے گھورے جا رہی تھی۔ دراصل میں نے اسے مریم سے اہنی گفتگو کے بارے میں بتایا نہیں تھا۔ نہ ہی اسے مجھے مریم سے ملنے والی ٹپ کا پتہ تھا۔ میں نے گلاس مریم کو تھمایا جو مجھے تھینکس کہہ کر گلاس تھامے اسی کیبن کی طرف چل دیں۔
"واہ بھئی۔ کیا چکر ہے؟" فاخرہ نے شرارتی لہجے میں پوچھا۔
"پچھلی مرتبہ انہوں نے میرا نام پوچھا تھا اور کافی ملنسار خاتون ہیں وہ۔" میں نے جواب دیا۔
"اپنی عمر دیکھو عثمان۔ یہ چکر ٹھیک نہیں ہے"
"کیسا چکر یار۔ صرف نام ہی تو بتایا ہے میں نے۔ میں کونسا انہیں ڈیٹ پر لے کے جا رہا ہوں۔ ویسے اتنی بڑی بھی نہیں ہیں مجھ سے۔"
"تم نے انہیں شاید باہر دن کی روشنی میں نہیں دیکھا۔ کم از کم بھی پچاس سال کی ہوں گی" فاخرہ مجھے چڑا رہی تھی۔
"ہر گز نہیں۔ میرے خیال میں چالیس یا اکتالیس کی ہوں گی زیادہ سے زیادہ۔" میں نے فاخرہ کو جواب دیا۔
"میں نہیں مانتی۔ پچاس سے کم ہو ہی نہیں سکتیں۔ میں ان سے شاپنگ مال میں بھی مل چکی ہوں ایک بار۔ کافی امیر خاتون ہیں۔ ٹریول ایجنسی کا بزنس کرتی ہیں اور ان کی کمپنی کی کافی برانچیں ہیں شہر میں۔ میں تو کہتی ہوں تگڑی آسامی ہے" فاخرہ نے آخری فقرہ پر آنکھ مارنا ضروری سمجھا۔
"تمہیں تو بڑی معلومات ہیں ان کے بارے میں" میں واقعی حیران تھا کہ فاخرہ کو اتنا کچھ کیسے پتہ تھا۔
"یہ ہارون کی دوست ہیں۔ تب ہی تو یہاں کبھی لنچ کرنے آتی ہیں" فاخرہ نے بتایا۔ ہارون ہمارے ریسٹورنٹ کا مالک تھا۔
جب میں کھانا لے کر کیبن میں گیا تو میں نے جان بوجھ کر انہیں نام سے مخاطب کیا۔ مجھے معلوم تھا کہ امیر لوگوں میں نام سے ہی مخاطب کرنے کا رواج ہوتا ہے خواہ عمر چھوٹی ہو یا بڑی۔ وہ بھی میری اس حرکت پر مسکرائیں اور بل ادا کر کے مجھے پھر سے پانچ سو روپے کی ٹپ دے دی۔ اتنی بڑی ٹپ کوئی کسٹمر نہیں دیتا اور میں شرمندہ سا ہو رہا تھا لیکن منع کرنا بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔
اس تیسری ملاقات کے بعد میں انہیں اپنے دماغ سے نہ نکال پایا۔ وہ ہر دو یا تین ہفتوں کے بعد ریسٹورنٹ آتیں اور ہمیشہ میں ہی ان کا آرڈر لیتا۔ وہ مجھ سے ہی تجویز مانگتیں اور میں ہر بار ان کے آنے سے پہلے سوچتا رہتا کہ اب کی بار انہیں کیا کھلاؤں۔ وہ میری تجاویز پر کبھی مسکراتیں تو کبھی ہنس پڑتیں۔ مجھے ان سے انسیت ہونے لگی تھی۔
ظاہر ہے مجھے یہ تو معلوم تھا کہ میرا اور ان کا کسی قسم کا تعلق ناممکنات میں سے تھا۔ پرکشش تو وہ بہت تھیں لیکن ساتھ ہی امیر کبیر کامیاب بزنس ویمن بھی تھیں۔ دولت مند اور خود کفیل۔ اور جہاں تک میری معلومات تھیں وہ شادی شدہ تھی اور ان کے بچے بھی تھے بلکہ شاید پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں بھی۔ اب مجھے احساس ہونے لگا کہ فاخرہ کی بات درست تھی۔ وہ واقعی عمر میں مجھ سے کافی بڑی تھیں۔ اتنی بار انہیں دیکھ کر اب مجھے ان کے ہاتھوں اور آنکھوں کی سائیڈوں پر ہلکی ہلکی جھریاں بھی دکھنے لگی تھیں۔ وہ واقعی پچاس برس سے اوپر کی ہی تھیں۔
لیکن اس سب کے باوجود مجھے ان کا ریسٹورنٹ آنا اور میرے منہ سے مینو سننا، میری طرف دیکھ کر مسکرانا، بل کی ادائیگی کیلئے پرس کھنگالنا اور پھر مجھے ٹپ دینا بہت اچھا لگتا تھا۔
جو کچھ آنے والے دنوں میں ہوا اس میں اس ٹپ کا بہت بڑا کردار تھا۔ دسمبر کا مہینہ تھا۔ مجھے یہاں نوکری کرتے چوتھا مہینہ تھا۔ مریم اب تک سات مرتبہ ریسٹورنٹ آ چکی تھیں اور ہر مرتبہ مجھے پانچ سو روپے کی ٹپ دے کر ہی گئی تھیں۔ مجھے یہ برا لگنے لگا تھا۔ میں ان سے ایسا تعلق چاہتا تھا جس میں پیسوں کا لین دین ہی نہ ہو سرے سے۔ میں ان سے دوستی کرنا چاہتا تھا۔ لیکن یہ صرف میری خواہش تھی۔ بھلا وہ کیوں کسی سٹوڈنٹ سے دوستی کرنے لگیں۔
پیر کا دن تھا جب وہ تشریف لائیں۔ انہوں نے سوپ کے ساتھ بریڈ کھائی اور وہسکی پی۔ جب میں بل کیلئے مشین لے کر ان کے پاس گیا تو انہوں نے حسب معمول مجھے اپنا بینک کارڈ اور پانچ سو کا نوٹ تھما دیا۔
"سوری مریم۔ میں آپ سے اب یہ ٹپ نہیں لے سکتا۔ میں نے کوئی ایس کام نہیں کیا کہ میں اتنی بڑی ٹپ کا حقدار ٹھہروں۔" ہمت کر کے میں نے دل کی بات کہہ ہی دی۔
"اوہ۔ بھئی یہ میرا شکریہ ادا کرنے کا طریقہ ہے۔ تمہاری وجہ سے یہاں لنچ کرنا میرے لئے بورنگ نہیں رہا اور اب تو میں انتظار کرتی ہوں یہاں آنے کا اور تم سے بات چیت کا۔" مریم کی بات پر میں چونک گیا۔ پہلی بار انہوں نے اس طرح کی کوئی بات کی تھی۔ میری نظریں خود بخود جھک گئیں۔
"بس مجھے یہ ٹپ لینا اچھا نہیں لگا تو میں نے کہہ دیا۔"
مریم خاموشی سے اٹھیں اور کرسی کی پشت پر سے اپنا کوٹ اٹھا کر پہننے لگیں۔ میں نے دانستہ ان کی طرف دیکھنے سے گریز کیا۔ انہوں نے کوٹ پہن کر میز پر سے اپنا پرس اٹھا کر کندھے پر ڈالا اور جب میری طرف رخ کیا تو جیسے پھر سے مجھے اندر سے کسی نے جھنجھوڑ ڈالا۔ ان کی صحبت میرے جذبات برانگیختہ کئے دے رہی تھی۔
"عثمان مجھے تمہارے احساسات کی قدر ہے۔ ٹپ نہ سہی میں کسی اور طریقے سے تمہارا شکریہ ادا کر دوں گی" مریم نے نوٹ واپس پرس میں رکھتے ہوئے مجھ سے کہا۔ ان کی بات کا نہ جانے کیا مطلب تھا لیکن جو مطلب میں نے اخذ کیا اس سے میرے گال تک لال ہو گئے۔
"عید آنے والی ہے۔ اگر تم چاہو تو عید پر میرے ساتھ کہیں ڈنر پر چلو" مریم نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ان کی مسکراہٹ سے ایسا لگتا تھا جیسے انہیں پتہ ہو کہ میں کیا سوچ رہا ہوں۔
میں نے تھوک نگلا اور اپنی قسمت پر رشک کرنے لگا۔ اتنی خوبصورت خاتون مجھے ڈنر پر لے کر جانا چاہتی تھیں۔ تھا تو ناقابل یقین لیکن مریم میرے سامنے کھڑی مجھے احساس دلا رہی تھیں کہ یہ حقیقت ہی ہے۔ وہ میری طرف دیکھ رہی تھیں جیسے میرے جواب کی منتظر ہوں۔
"جی ضرور۔۔۔۔ ہاں وہ۔۔۔۔ کیوں نہیں ۔۔۔۔۔" میری زبان میں نہ جانے کیوں لکنت آ گئی۔
"ٹھیک ہے پھر بدھ کا دن تمہارے لئے مناسب ہے؟" مریم کا لہجہ بہت ہی شائستہ تھا۔ انہیں بھی پتہ تھا کہ میری زندگی بس پڑھائی اور نوکری ہی ہے۔ اس کے علاوہ تو کوئی سوشل لائف ہے ہی نہیں۔
"جی۔ بدھ ٹھیک رہے گا۔ پھر بھی میں دیکھ لیتا ہوں کہ بدھ کو کوئی اور کام تو نہیں مجھے۔" میں نے بڑی مشکل سے اپنا کانفیڈنس بحال کرنے کی کوشش کی۔
مریم نے پھر سے اپنے پرس میں ہاتھ ڈالا اور اپنا بزنس کارڈ نکال کر مجھے تھما دیا۔
"نیلم روڈ پر ایک چھوٹا سا نٹالیا نام کا کیفے ہے۔ میں سات بجے کی بکنگ کروا لوں گی. اگر کوئی کام ہوا بدھ کو تو مجھے کال کر دینا پہلے سے۔" مریم نے مسکراتے ہوئے کہا۔
یہ کہہ کر وہ چلی گئیں لیکن میں وہیں کھڑا گزرے لمحات کے بارے میں سوچتا رہا۔ ان کے کارڈ کو تکتا رہا۔ کارڈ بالکل سادہ سا تھا جس پر ان کے بزنس کا نام درج تھا "مریم شاہ انٹرپرائز" اور نیچے ان کا موبائل نمبر اور لوگو تھا۔
اس رات پہلی بار میں مریم کے خیالوں میں کھویا رہا۔ ان کے حسین سراپے کو تخیل میں لا کر سوچتا رہا۔ نہ جانے کب بستر میں لیٹے لیٹے میرا ہاتھ اپنی ٹانگوں کے درمیان چلا گیا اور میں نے خیالات میں مریم کے جسم کو چھوا، ان کے جسم پر ان گنت بوست ثبت کئے۔ آج سے پہلے جب بھی مریم کے جسم کے بارے میں سوچتا تھا تو ایسا لگتا تھا جیسے یہ کوئی ممنوعہ کام ہو جیسے یہ کوئی گناہ ہو جیسے مریم کے جسم کا سوچنا ایسا ہے جیسے اپنی ماں یا اپنی بہن کے بارے میں سوچنا۔ میں ہمیشہ ایسے خیالات جھٹک دیا کرتا تھا لیکن آج جھٹکنے کی بجائے مریم کا سوچ کر اپنے لن پر ہاتھ پھیرنے لگا۔
شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ اب مجھے مریم کے ساتھ جسمانی تعلق ناممکن نہیں لگتا تھا۔ انہوں نے مجھے ڈنر کی دعوت دی تھی تو ظاہر ہے انہیں میں پسند تو تھا نا۔ جب میں نے آنکھیں بند کر کے خیالوں میں مریم کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ ٹچ کئے، ان کے جسم کو ہاتھوں میں لے کر ان کے کپڑے اتارے تو میرا ہاتھ اپنے لن پر تیزی سے اوپر نیچے ہونے لگا۔ میں نے خیالوں میں مریم کو ننگی کر دیا اور انہیں بستر پر لٹا کر اپنا لن ان کی ٹانگوں کے درمیان رکھ دیا۔
"آہ ہ ہ ہ ہ مریم" میرے منہ سے ایک لمبی سی آہ نکل گئی اور ساتھ ہی میں ڈسچارج بھی ہو گیا۔ کپڑے تو گندے ہو ہی گئے تھے لیکن ساتھ ہی میرے جذبات بھی تبدیل ہو گئے۔ مریم کے ساتھ جنسی تعلق ایک بچگانہ سوچ لگنے لگی۔ اپنے اوپر ہنسی آنے لگی اور میں سوچنے لگا شاید مریم نے ترس کھا کر مجھے ڈنر پر مدعو کیا ہے یا شاید وہ اپنے سامنے مجھے گھبرایا دیکھ کر محظوظ ہوتی ہیں۔
اگلا ایک ہفتہ بہت بے چینی کے عالم میں گزرا۔ کبھی میں سوچتا کینڈل لائٹ ڈنر میں مریم کو اپنی ذہانت سے متاثر کر دوں گا تو کبھی مجھے لگتا کہ انہیں دیکھ کر میرا سارا کانفیڈنس تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائے گا اور سارا وقت میری گھبراہٹ میں ہی گزر جائے گا۔
عید پر بھی ریسٹورنٹ تو اوپن ہی تھا اور چھٹی بھی نہیں تھی میری لیکن بدھ والے دن میں اس قدر نروس تھا کہ فاخرہ بھی میری حالت دیکھ کر پوچھ بیٹھی کہ سب کچھ ٹھیک ہے نا۔ میں نے اسے امتحانات کا بہانہ کر دیا کہ پیپرز کی وجہ سے پریشان ہوں۔
ریسٹورنٹ سے چھٹی کے بعد ہاسٹل پہنچ کر میں نے شاور لیا، بوٹ پالش کیے اور گہرے نیلے رنگ کی شرٹ کاٹن جینز کی پینٹ کے ساتھ پہنی۔ یہ شرٹ میں نے پچھلے ہفتے آج کیلئے ہی خریدی تھی اور اتنی مہنگی خریدی تھی کہ اتنے پیسوں میں دو ہفتے کی خوراک کا بندوبست ہو سکتا تھا۔ شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر خود کو دیکھا اور امید کی کہ مریم کو پسند آ جاؤں گا۔ ایک لمحے کو خیال آیا کہ کہیں وہ یہ توقع نہ کر رہی ہوں کہ میں سوٹ پہن کر آؤں گا۔ میرے پاس تو کوئی سوٹ تھا بھی نہیں۔ خیر میں تیار ہو کر وقت سے پہلے ہی کیفے جانے کیلئے نکل کھڑا ہوا اور جب وہاں پہنچا تو سات بجنے میں ابھی پندرہ منٹ باقی تھے۔
کیفے میری توقعات سے زیادہ پرتعیش تھا۔ باہر ہی ایک بیرہ لوگوں کو خوش آمدید کہہ رہا تھا۔ میں کیفے میں داخل ہوا تو کانوں میں باتوں کی آوازیں آنے لگیں۔ میں نے بیرے کو مریم شاہ کا بتایا تو وہ مجھے اوپری منزل پر بالکونی میں لے آیا جہاں ایک ہی میز تھی اور کسی قسم کی کوئی آواز بھی نہیں آ رہی تھی۔ اس نے مجھے بتایا کہ مریم شاہ صاحبہ تو ابھی نہیں آئیں اور اگر میں چاہوں تو دوران انتظار کوئی بھی چیز آرڈر کر سکتا ہوں۔ میں نے منع کر دیا اور تنہائی میں مریم کی راہ دیکھنے لگا۔
میں نے سوچا یقیناً مریم غیر شادی شدہ ہوں گی ورنہ مجھ جیسے جوان لڑکے کو یوں ڈنر پر کیوں بلاتیں۔ یا پھر شاید یہ ان کیلئے بزنس ڈنر ہی تھا اور وہ بس ریسٹورنٹ میں میری خدمات کا شکریہ ادا کرنا چاہ رہی ہوں۔ اور انہوں نے میرے بارے میں اپنے شوہر کو بھی بتا دیا ہو گا۔ کہیں وہ شوہر کو بھی ساتھ ہی نہ لے آئیں ڈنر پر۔ لیکن میز تو دو ہی افراد کیلئے سجائی گئی تھی۔ میں اپنی بے وقوفانہ سوچ پر مسکرا اٹھا۔
میں نے گھڑی کی طرف دیکھا۔ سات بجنے میں پانچ منٹ رہ گئے تھے۔
نہ جانے وہ کیسے کپڑے پہن کر آئیں گی۔ ریسٹورنٹ میں تو ہمیشہ بزنس سوٹ پہنتی تھیں۔ ایک مرتبہ بس سکرٹ پہن کر آئی تھیں۔ مجھے سکرٹ زیادہ پسند تھا۔ ان کی ٹانگیں بھی تو بہت خوبصورت تھیں۔ ایسی خوبصورت ٹانگوں کو کپڑوں میں چھپانا اچھی بات نہیں۔ یہ تو سب کو نظر آنی چاہئیں۔
سات بج گئے اور بے اختیار میری نگاہ دروازے کی جانب اٹھ گئی لیکن دروازہ بند تھا۔ کہیں انہوں نے مجھے دھوکہ تو نہیں دیا۔ لگتی تو نہیں تھیں ایسی۔ یا شاید انہیں کوئی کام پڑ گیا ہو اور ان کے پاس تو میرا نمبر ہی نہیں تو کال کیسے کرتیں۔ ویسے ریسٹورنٹ کا نمبر تو ہو گا ہی۔ وہاں ہی کال کر کے بتا دیتیں دن میں۔
سات بج کر پانچ منٹ ہو گئے۔ میں نے سوچا خواتین اکثر لیٹ ہو جاتی ہیں۔ نارمل ہی ہو گا یہ۔
سات بج کر دس منٹ ہو گئے۔ اب میں سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ مزید کتنی دیر مجھے ان کا انتظار کرنا چاہیے۔ ساڑھے سات تک، پونے آٹھ تک یا اس سے بھی زیادہ دیر تک۔
عین اسی وقت دروازہ کھلا اور مریم بالکونی میں داخل ہوئیں۔ بیرہ ان کے پیچھے تھا۔ میں فوراً ان کے استقبال کو کھڑا ہو گیا۔
مریم نے اپنا پرس فرش پر رکھا اور بیرے نے پیچھے سے انہیں کوٹ اتارنے میں مدد کی۔ ان کو کوٹ انتہائی قیمتی معلوم ہوتا تھا۔ نیچے انہوں نے گہرے سبز رنگ کا چست سا لباس پہن رکھا تھا جس سے ان کا فگر نمایاں ہو گیا تھا۔ چھاتیوں پر سے لباس چست ہونے کی وجہ سے ممے بھی کافی ابھرے ہوئے لگ رہے تھے۔ میک اپ سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ بیوٹی پارلر سے تیار ہوئی ہیں۔ بھرے بھرے ہونٹوں پر سرخ رنگ کی لپ اسٹک بہت جچ رہی تھی۔ لیمپ کی مدھم روشنی میں بھی ان کے کالے بال چمک رہے تھے اور جلد بھی دکھنے میں بہت ملائم لگ رہی تھی۔
"سوری عثمان۔ لیٹ ہو گئی۔ ایک میٹنگ تھی جو ختم ہی نہیں ہونے میں آ رہی تھی۔ اللہ اللہ کر کے ختم ہوئی تو میں گھر جا کے تیار ہوئی پھر یہاں آئی۔ رئیلی سوری"
میرا دل کیا آگے بڑھ کر انہیں چوم لوں لیکن بس مسکرانے پر ہی اکتفا کیا اور کہا: "کوئی بات نہیں میں بھی بس ابھی آیا تھا۔"
بیرے نے پوچھا کھانے سے پہلے کچھ لیں گے یا نہیں تو مریم نے فوراً اسے اپنے لئے جن اینڈ ٹانک لانے کا کہا۔ ریسٹورنٹ میں کام کرنے کے ناطے مجھے پتہ تھا کہ یہ بہت قیمتی شراب ہے۔ میں شراب پینے کا عادی نہیں تھا لیکن مریم کی موجودگی میں اپنے لئے پانی منگواتے عجیب سا لگ رہا تھا اس لئے میں نے بھی بیرے سے وہی شراب لانے کا کہہ دیا جو مریم نے اپنے لئے منگوائی تھی۔
"ہاں بھئی۔ کیسے ہو؟" بیرے کے جانے کے بعد مریم نے میری طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا۔ ان کی مسکراہٹ کے سامنے مجھے اپنا آپ پگھلتا محسوس ہوا۔ واقعی ان کا حسن بے مثال تھا۔
"ٹھیک ہوں" میں بس اتنا ہی کہہ سکا۔
بیرہ شراب لے آیا اور مریم نے نظریں مجھ پر گاڑے ہوئے ایک چسکی لی۔
"بتاؤ نا کچھ اپنے بارے میں۔ مجھے تو بس یہی پتہ ہے کہ تم سٹوڈنٹ ہو اور ساتھ ریسٹورنٹ میں نوکری کرتے ہو" انہوں نے مجھ سے کہا۔
"جی بتاتا ہوں۔ میرا تعلق گاؤں سے ہے۔ ابو آرکیٹیکٹ ہیں۔ دو بڑی بہنیں ہیں جو شادی شدہ ہیں۔" میں نے انہیں اپنا تعارف کروایا اور کرواتا ہی چلا گیا۔ انہیں بتایا کہ میں نے پہلے آرمی کا ٹیسٹ بھی دیا تھا لیکن انٹرویو میں فیل ہو گیا۔ مریم بہت توجہ سے میری باتیں سن رہی تھیں۔ ان کی نظریں بھی مجھ پر ہی تھیں۔ ساتھ ہی وہ مجھ سے سوال بھی پوچھ رہی تھیں۔ انہوں نے مجھ سے میری امی اور بہنوں سے متعلق پوچھا۔ پھر میرے مشاغل اور پسندیدہ میوزک کے بارے میں پوچھا۔ میں انہیں بتاتا گیا وہ میری باتوں پر مسکراتی گئیں اور مجھے اتنی خوشی محسوس ہوئی کہ الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ محض ان کی صحبت ہی میرے لئے کافی تھی۔ اب مجھے پرواہ نہیں تھی کہ آگے کیا ہوتا ہے۔ میرے لئے یہی کافی تھا کہ مریم جیسی انتہائی خوبصورت خاتون کی صحبت میں اتنے پیاری جگہ پر بیٹھ کر دل کی باتیں کر رہا تھا۔
کھانا لگ گیا۔ کھانا کھاتے کھاتے مجھے احساس ہوا کہ اب تک میں نے تو اپنے بارے میں بہت کچھ انہیں بتا دیا ہے لیکن ان سے کچھ بھی نہیں پوچھا۔
"آپ بھی تو اپنے بارے میں کچھ بتائیں نا۔" میں نے کہا۔
مریم نے اپنا منہ نیپکن سے صاف کیا اور بولیں: "کیا جاننا چاہتے ہو؟"
"سب کچھ۔ مجھے بھی آپ کے بارے میں بس اتنا ہی پتہ پے کہ آپ کا ٹریول ایجنسی کا بزنس ہے۔"
"میں فیصل آباد میں پیدا ہوئی تھی۔ والد ڈاکٹر تھے۔ انہیں برطانیہ میں نوکری مل گئی تو ہم سب وہاں شفٹ ہو گئے۔ اس وقت میری عمر پانچ سال تھی۔ اب میری عمر اکاون سال ہے۔"
"آپ کی انگریزی تو بہت اچھی ہو گی" میں نے پوچھا۔
"ہاں ظاہر ہے بچپن سے تو انگریزی بولتی آ رہی ہوں۔ اب تو میں سوچتی بھی انگریزی میں ہی ہوں اور خواب بھی انگریزی میں ہی آتے ہیں۔"
انہوں نے مزید بتایا کہ دو سال پہلے ان کے والد کی وفات ہو گئی تھی لیکن والدہ ابھی حیات تھیں۔ یہ بھی بتایا کہ کافی سال پہلے ان کی شادی ہوئی تھی لیکن زیادہ عرصہ چل نہ سکی تھی۔ بچے بھی نہیں تھے جس کا انہیں بہت دکھ تھا۔ ان کی ایک بہن بھی تھیں جو ڈاکٹر تھیں۔ مریم نے مزید بتایا کہ ان کے والد کو ان سے ہمیشہ مایوسی ہوئی تھی کیونکہ وہ ڈاکٹر جو نہیں بنی تھیں۔
"میں ہمیشہ سے اپنا بزنس کرنا چاہتی تھی۔ مقصد تو پیسہ کمانا ہی ہوتا ہے نا" ان کی آواز میں ہلکی سی اداسی تھی۔
"جی اور آپ تو کافی کامیابی بزنس وومن ہیں"
"کامیابی کی کئی قسمیں ہوتی ہیں عثمان۔" انہوں نے کہا۔ ہم کھانے کے بعد میٹھا بھی چکھ چکے تھے اور اب پھر سے شراب کی چسکیاں لے رہے تھے۔
مریم کی بات پر مجھ سے کوئی جواب نہ بن پڑا اور کچھ دیر خاموشی چھا گئی۔ شاید ہم دونوں ہی ایک دوسرے کی باتوں کو اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
اتنے میں بیرہ آ گیا اور یم سے کافی کا پوچھا۔ میں نے مریم کی طرف دیکھا۔
"نہیں " مریم نے سنجیدہ لہجے میں جواب دیا۔ میں ان کے لہجے میں اداسی بھانپ گیا تھا۔ شاید اب وہ اس ملاقات کو ختم کرنا چاہ رہی تھیں۔ انہوں نے بل منگوا کر ادائیگی کی اور بیرہ ان کا کوٹ بھی لے آیا جسے پہنانے میں اس نے مریم کی مدد بھی کی۔ کچھ ہی دیر میں ہم کیفے سے باہر نکل آئے۔
جب ہم کھانا کھا رہے تھے تب ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی جس سے اب موسم بہت خوشگوار ہو گیا تھا۔
"مریم آپ کا بہت شکریہ۔ مجھے آپ کے ساتھ وقت گزار کر بہت اچھا لگا" میں نے مریم کا شکریہ ادا کیا۔
"کیا تمہیں گھر جانے کی جلدی ہے؟" انہوں نے پوچھا۔
"نہیں تو"
"میرا فلیٹ یہاں سے قریب ہی ہے۔ چلو چل کر کافی پیتے ہیں۔ اس کیفے کی کافی اتنی اچھی نہیں ہے اسی لئے میں نے یہاں سے نہیں پی۔"
دس بج چکے تھے اور رش کم ہونے لگا تھا۔ ریسٹورنٹ البتہ کھلے تھے۔ میں مریم کے ساتھ پیدل چلنے لگا۔ فلیٹ قریب ہونے کی وجہ سے وہ کیفے بھی پیدل پی آئی تھیں۔ چند منٹ کے بعد ایک بلڈنگ کے سیکیورٹی ڈور سے گزرنے کیلئے مریم نے پرس سے ایک کارڈ نکال کر سوائپ کیا اور ہم بلڈنگ کی لابی میں پہنچ گئے۔ لفٹ میں سوار ہو کر مریم نے دسویں منزل کا بٹن دبا دیا۔ دسویں منزل سے سے بالائی منزل تھی۔
لفٹ سے نکلے تو نیچے سے بھی بڑی لابی ہمارے سامنے تھی۔ یہاں دو دروازے تھے۔ مریم نے چابی نکال کر ایک دروازہ کھولا۔ یہاں جوتوں کا ریک اور کپڑوں کی الماری تھی۔ مریم نے اپنا کوٹ ٹانگ دیا اور ہم فلیٹ کے مین ایریا میں آ گئے۔ ان کا فلیٹ کافی بڑا تھا۔ لاؤنج میں کئی صوفے رکھے تھے اور دیوار پر بڑی سی ایل سی ڈی نصب تھی۔ ایک طرف کچن تھا اور دوسری طرف کمروں کے دروازے۔ کچن کے ساتھ ایک بڑی سی کھڑکی سے باہر کا منظر نظر آتا تھا۔
"واؤ۔ زبردست اپارٹمنٹ ہے" میں نے ان کے فلیٹ کی تعریف کی۔
"تازہ تازہ کافی پینا پسند کرو گے یا پھر چھوڑو کافی۔ آؤ پیار کریں"
مریم کی بات غیر متوقع تو تھی لیکن میری تو جیسے آواز ہی بند ہو گئی۔ چاہنے کے باوجود ان کی بات کا جواب نہ دے پا رہا تھا اور سانس ایسے پھولی ہوئی تھی جیسے پانچ ہزار میٹر کی ریس لگا کر آیا ہوں۔ لیکن مجھے ان کا یوں بولڈ انداز اچھا لگا تھا۔ بغیر کسی تمہید کے وہ مطلب کی بات پر آ گئی تھیں۔
"یس" میں نے ہمت جمع کر کے بس اتنا ہی کہا۔
 

Quratulain Tahira

Quratulain Tahira