میں بھی بیڈ پر چڑھ گیا۔ مریم نے ابھی تک ہیلز پہن رکھی تھیں۔ میں نے ان کے جسم کو چھوا تو انہوں نے اپنی ٹانگیں کھول دیں۔ میں نے لن پکڑ کر ان کی ٹانگوں کے درمیان ان کی پھدی پر رکھا جو تاحال گیلی تھی۔ میرا لن باآسانی اندر چلا گیا اور میں انہیں چودنے لگا۔ مریم نے ہاتھ میرے کندھوں پر ڈال لئے۔ میں نے جھٹکے تو ذیادہ تیز نہیں مارے لیکن آہستہ جھٹکوں میں اس بات کا خیال رکھا کہ ہر جھٹکے پر میرا لن پورا باہر نکلے اور پھر پورا اندر جائے۔ ایسا کرنے سے مجھے بہت مزہ آ رہا تھا۔ میں نے لن ان کی پھدی میں اندر باہر کرتے ہوئے نیچے دیکھا۔ بیڈروم کی ہلکی سی روشنی میں مریم کو اپنی طرف دیکھتے پایا۔
ساری صورتحال ہی مجھے عجیب لگی ، بے یقینی کی سی کیفیت طاری ہونے لگی۔ ایسا بھلا کیسے ہو سکتا تھا کہ اتنی خوبصورت، ذہین، کامیاب ، دولت مند خاتون مجھے جیسے غریب سٹوڈنٹ کے ساتھ بستر میں ہوں۔ آخر انہیں مجھ میں ایسا کیا پسند آیا تھا؟
میں نے ایک بار پھر اپنی سوچوں کو دماغ سے جھٹکا اور اس لطف پر فوکس کرنے لگا کو ہر بار لن مریم کی گیلی پھدی میں ڈالنے پر مل رہا تھا۔ میں نے جھٹکوں کی رفتار بڑھا دی۔ مریم نے ہاتھ میرے چوتڑوں پر رکھ دئے۔ ان کی پھدی کا گیلا پن اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ جنسی طور پر پھر سے مشتعل ہو گئی ہیں۔ کمرے میں ہمارے جسموں کی مہک پھیل گئی تھی۔
جیسے جیسے میں ڈسچارج ہونے کے قریب ہو رہا تھا ویسے ویسے میرے جھٹکوں کی رفتار بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ مریم نے ہاتھ میرے جسم سے ہٹا کر بیڈ پر رکھ دئے۔ میں ان کے اوپر جھکا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے ان کی کلائیاں پکڑ لیں۔ میرا انداز ایسا تھا جیسے میں نے انہیں بیڈ پر جکڑ دیا ہو۔ اس کا اثر ان کی آوازوں میں بخوبی سنائی دے رہا تھا۔ ان کا منہ کھلا تھا اور مسلسل آہ آہ کئے جا رہی تھیں۔ دونوں پاؤں میرے چوتڑوں پر رکھے، کلائیاں میرے ہاتھوں کے نیچے دبی ہونے کے سبب وہ میرے نیچے مچلنے لگیں۔ ان کے ہاتھوں کے پٹھے مجھے اپنے ہاتھوں تلے سخت ہوتے محسوس ہوئے۔ وہ اتنی گرم ہو گئی تھیں کہ میری ہر جھٹکے پر اپنے چوتڑ اٹھا کر میرا ساتھ دے رہی تھیں۔
میں وحشیوں کی طرح انہیں چودنے لگا اور جلد ہی ان کی پھدی کے اندر ڈسچارج ہونے لگا۔ میرا جسم جذبات کی حدت سے کانپ اٹھا اور ڈسچارج ہوتے ہوئے کچھ لمحات کیلئے مجھے لگا جیسے مریم ہمیشہ کیلئے میری ہیں اور میں ان کا۔۔
پھر یہ فیلنگ ختم ہو گئی۔ میں نے اپنا لن ان کی پھدی سے نکالا اور بیڈ پر ان کے ساتھ ہی دراز ہو گیا۔ مریم نے بھی ٹانگیں سیدھی کر لیں۔ وہ بیڈ سے اٹھیں اور ٹوائلٹ کی طرف بڑھیں۔ ایک منٹ بعد مجھے کموڈ فلش ہونے کی آواز آئی اور چند لمحات کے بعد مریم واپس بیڈ پر آ کر میرے ساتھ چپک کر لیٹ گئیں۔ میں نے اپنا بازو ان کے گرد کر کے انہیں اپنے سینے سے چپکا لیا۔ نہ جانے ایسا کرنے میں اتنا سرور کیوں تھا۔ میں خوش تھا، مطمئن تھا۔ جو کچھ میں نے پا لیا تھا اس کا کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے میری زندگی کا مقصد ہی یہ تھا۔ اگر مجھے مریم دوبارہ کبھی نہ ملتیں تو بھی میں مطمئن ہی رہتا۔ اور اگر مر بھی جاتا تو میری موت ایک مطمئن مرد کی موت ہوتی۔
اس کے بعد شاید ہم سو گئے تھے کیونکہ مجھے اتنا یاد ہے کہ جب میری آنکھ گھڑی کے ڈائل پر پڑی تو آدھی رات سے اوپر کا وقت تھا۔ کمرے کا موسم سرد تھا۔ مریم اٹھ بیٹھی اور دونوں ہاتھ سینے پر باندھ کر کہنے لگی کہ سردی لگ رہی ہے۔
"رات یہیں رہ جاؤ۔ صبح مجھے سات بجے والی ٹرین پکڑنی ہے اس لئے تمہیں چھ بجے یہاں سے نکلنا ہو گا۔" مریم نے کہا۔
اس رات میں مریم کے ساتھ ہی سو گیا۔ بلکہ سوئی تو مریم ہی تھیں۔ میں تو جاگتا ہی رہا تھا۔ رضائی کے نیچے مریم میری بانہوں میں سو رہی تھیں اور میں گزرے واقعات اپنے ذہن میں دہرائے جا رہا تھا۔ ایک ایک منٹ ایک ایک سیکنڈ میرے ذہن میں جیسے چسپاں ہو کر رہ گیا تھا۔ پھر نہ جانے کب میری بھی آنکھ لگ گئی۔
جب آنکھ کھلی تو شاور کی آواز آ رہی تھی۔ ایک یا دو منٹ بعد مریم واشروم سے باہر نکلیں۔ وہ اب بھی ننگی تھیں۔ پھر وہ ڈریسنگ روم میں چلی گئیں۔ میں بھی اٹھ کھڑا ہوا اور رات والے کپڑے پہن کر واشروم میں گیا۔ مریم نے ایک اضافی برش میرے لئے پہلے ہی وہاں رکھ دیا تھا۔ میں نے دانت صاف کئے اور منہ ہاتھ دھو کر لاؤنج میں آ گیا۔ مریم ایک بڑے سے مگ میں چائے پی رہی تھیں اور میرا مگ ٹیبل پر رکھا تھا۔ میں نے بھی مگ اٹھا لیا اور چائے پینے لگا۔
ایک عجیب سی خاموشی تھی ہمارے درمیان یا شاید صرف میں نے ہی محسوس کی تھی۔ مریم نے چائے پی کر اپنا مگ دھو کر رکھ دیا۔ اوپن کچن کی وجہ سے وہ میری نظروں کے سامنے ہی تھیں۔
"اچھا عثمان۔ میں اب جا رہی ہوں۔ اپنا نمبر مجھے دے دو۔" مریم نے اپنے پرس سے ایک کارڈ نکالا اور پین مجھے تھمایا۔ میں نے کارڈ کی پشت پر اپنا نمبر لکھ دیا۔ پھر ہم دونوں ہی لفٹ سے نیچے آئے اور بلڈنگ سے باہر آ گئے جہاں ٹیکسی مریم کے انتظار میں پہلے سے کھڑی تھی۔ مریم جلدی سے ٹیکسی میں سوار کو گئیں اور ہاتھ ہلا کر مجھے بائے کہا۔ ٹیکسی میری نظروں سے دور ہوتی گئی اور میں روتی صورت بنائے وہیں کھڑا دیکھتا رہا۔ رونا مجھے اس لئے آ رہا تھا کہ مریم کا رویہ رات سے بالکل الٹ تھا۔ ان کا رویہ بہت سرد تھا۔
میں پیدل ہی ہاسٹل کی جانب چل پڑا۔
میں مریم کو کال کرنا چاہتا تھا لیکن مجھے ڈر تھا کہیں وہ کوئی ایسی بات نہ کہہ دیں جس سے میرا دل ہی ٹوٹ جائے۔ اگر وہ یہ کہہ دیتیں کہ یہ بس ایک رات کی کہانی تھی تو مجھے بہت دکھ ہوتا۔ یہ احساس بھی تھا کہ میں ہی کیوں کال کروں۔ وہ خود کیوں نہیں کرتیں۔ میں اپنی روٹین کے مطابق یونیورسٹی جاتا، پڑھتا اور مریم کو بھولنے کی کوشش کرتا لیکن ناکامی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آتا۔ بار بار ان کا خیال آتا تھا اور میں روہانسا ہو جاتا۔ میں نے کالج کی ایک پرانی دوست کو فون کیا۔ وہ فوراً ملنے پر تیار ہو گئی لیکن اس سے ملاقات پر مجھے شدت سے احساس ہوا کہ نوجوان لڑکیوں اور پکی عمر کی عورتوں میں کس قدر فرق ہے۔
تین ہفتے بیت گئے۔ مریم کی نہ کال آئی نہ وہ خود ریسٹورنٹ آئیں۔