باہر والوں کو ویسے بھی سفیان کی کوئی پرواہ ہی نہیں تھی۔ حبشی نے عائشہ کو کپڑوں سے بے نیاز کر دیا تھا اور اسے اپنے مضبوط بازوؤں میں اٹھا کر بیڈ پر لٹا دیا تھا۔ ابھی وہ خود کپڑوں میں ہی تھا۔ عائشہ کا انتہائی متناسب جسم اس حبشی کو بھی پاگل کر رہا تھا۔ عائشہ اس کے احرام میں عضو تناسل کی جگہ پر ابھار دیکھ کر یہ سوچے بنا نہ رہ سکی تھی کہ نہ جانے اس کا عضو تناسل کتنا بڑا ہو گا۔
حبشی نے عائشہ کی ٹانگیں پکڑ کر کھینچا اور کنارے پر لا کر دونوں ٹانگوں کو کھول دیا اور خود بیچ میں ایسے بیٹھ گیا کہ اس کا چہرہ عائشہ کی اندام نہانی کے بالکل سامنے آ گیا۔ اتنی پیاری خوشبو آئی کہ اس نے چند لمحے آنکھیں بند کر کے لمبی سانسیں لیں جیسے وہ عائشہ کی اندام نہانی کی خوشبو کو اپنے اندر سمو لینا چاہتا ہو۔ پھر جب آنکھیں کھولیں تو پہلے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے اندام نہانی کے لبوں کو چھو کر دیکھا۔ گلاب کی پنکھڑی جیسے لب عائشہ کی اندام نہانی سے نکلنے والے مادے سے تر تھے۔ صاف ظاہر تھا کہ عائشہ خوب گرم ہے۔ حبشی نے منہ آگے کیا اور ایک محبت بھرا بوسہ اس کی اندام نہانی پر ثبت کر دیا۔ عائشہ منہ سے سسکی نکل گئی۔ بوسہ لیا تو عائشہ کے گیلے لبوں پر لگے لیس دار مادے کا ذائقہ حبشی کی زبان پر آ گیا۔ پھر اس سے رہا نہ گیا اور وہ دیوانہ وار اس پر زبان پھیرنے لگا۔ باہری لبوں پر اوپر سے نیچے تک اور پھر اندام نہانی کے لبوں کو زبان کی ہی مدد سے چیر کر اندر سے بھی چاٹنے لگا۔ عائشہ تو ساتویں آسمان پر پہنچ گئی تھی۔ سفیان نے بھی اس کی اندام نہانی کو چاٹا تھا لیکن اس حبشی میں کچھ خاص تھا۔ ایک تو یہ کہ حبشی اس کا شوہر نہیں تھا، دوسرا یہ کہ وہ خاصہ تجربہ کار معلوم ہوتا تھا۔ حبشی عائشہ کی اندام نہانی کو ایسے چوم اور چاٹ رہا تھا جیسے وہ عائشہ کے ہونٹوں پر بوسہ کر رہا ہو۔ جب اس نے اپنی زبان عائشہ کی اندام نہانی میں ڈال کر اندر باہر کرنا شروع کی تو عائشہ کی قوت برداشت جواب دے گئی۔ اس کے ہاتھ حبشی کے سر پر تھے اور وہ ڈسچارج ہو رہی تھی۔ حبشی کے سر پر اس کے ہاتھوں کا دباؤ بہت زیادہ بڑھ گیا تھا اور منہ سے نکلنے والی سسکیاں اور آہ آہ کی آوازیں بھی بلند سے بلند ہوتی گئیں۔ جب وہ ڈسچارج ہو گئی، تو آوازیں تو رک گئیں لیکن اس کی سانسیں اب بھی بہت تیز چل رہی تھیں۔
ادھر سفیان کیلئے مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا تھا کہ وہ عائشہ کی آوازوں کو اپنے کان میں گھسنے سے روک سکے۔ دونوں ہاتھ کان ہر رکھنے کے باوجود جب عائشہ کی آہیں اور سسکیاں اس کے کانوں میں گھستی چلی گئیں تو وہ ایک دم سے اٹھا اور اسی منی لگے احرام میں ہی غسل خانے کا دروازہ کھول کر باہر آ گیا۔ پہلی نظر صوفے پر پڑی جہاں اب کوئی نہیں تھا۔ پھر بیڈ کی جانب نظر گھمائی تو دیکھا کہ حبشی اس کی پاکیزہ بیوی کی ٹانگوں کے درمیان بیٹھا اس کی اندام نہانی چاٹ رہا ہے اور عائشہ اتنے مزے میں ہے کہ سوائے آہ آہ کے اس کے منہ سے کچھ نکل ہی نہیں رہا۔ سفیان کے قدم وہیں جم کر رہ گئے۔ اس کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ آگے بڑھ کر کچھ دیکھے۔ اپنی بیوی کو اس حبشی کی زبان پر ڈسچارج ہوتے دیکھ کر اس کے جذبات برانگیختہ ہو گئے اور اس کا دل چاہا کہ حبشی کو دھکے دے کر کمرے سے نکال باہر کرے لیکن ایک تو وہ اتنا بدتمیز تھا ہی نہیں اور دوسرا وہ حبشی سفیان سے کہیں زیادہ طاقتور تھا۔ سفیان کی سوچ ماؤف ہو گئی۔ اسے سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے۔
اتنے میں حبشی جو عائشہ کی اندام نہانی سے نکلنے والے مادے کو چاٹ کر کھڑا ہو رہا تھا، اس نے مڑ کر سفیان کی طرف دیکھا اور سفیان کے چہرے پر غم کے تاثرات دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔
سفیان کو لگا تھا شاید وہ حبشی اس کے جذبات سمجھ کر خود ہی واپس چلا جائے گا لیکن حبشی نے چند لمحات اسے دیکھنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ اس کی توجہ عائشہ پر تھی اور ہونی بھی اسی پر چاہیے تھی۔
سفیان روتا سا منہ لے کر وہیں کھڑا دیکھتا رہا۔ اس کی پاکدامن بیوی اس کے سامنے بستر پر ننگی لیٹی تھی اور حبشی اس کی جانب بڑھ رہا تھا۔ سفیان کا دل کر رہا تھا دھاڑیں مار کر رو پڑے لیکن اس نے خود پر قابو رکھا۔ عائشہ جو روکتا بھی تو کس منہ سے۔ خود ہی تو اس نے عائشہ کو اس جانب رغبت دلائی تھی اور اب جب وہ راضی ہوئی تو اسے منع کرنا معیوب لگ رہا تھا۔
عائشہ نے بھی سفیان کے چہرے پر انتہائی غم کے تاثرات دیکھ لئے تھے لیکن اس نے کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں کوئی بدمزگی نہ ہو جائے اس لئے جب تک سفیان خاموش ہے، اسے بھی خاموش ہی رہنا چاہئے۔ ویسے بھی اس حبشی نے اسے کچھ کرنے یا کہنے کا موقع ہی کب دیا تھا۔ سفیان کے غم زدہ چہرے کو دیکھ کر وہ جیسے ہی پلٹا تھا، اس نے اہنے جسم کو کپڑوں سے بے نیاز کر دیا تھا اور فوراً عائشہ کے سامنے آ کھڑا ہوا تھا۔ عائشہ تب تک اٹھ بیٹھی تھی اور اس حبشی کا عضو تناسل دیکھ کر اسے سفیان کا عضو تناسل بہت چھوٹا لگنے لگا تھا۔ حبشی کا عضو تناسل مکمل تنا ہوا تھا اور سفیان سے تقریباً دو گنا لمبا تھا۔ موٹا بھی زیادہ تھا۔ وہ ڈر تو گئی تھی لیکن بات اب جہاں پہنچ چکی تھی وہاں سے واپسی ناممکن تھی۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر اس حبشی کا عضو تناسل اپنے ہاتھ میں تھاما تو اسے اس کی سختی اور موٹائی کا درست اندازہ ہوا۔ عائشہ کی کلائی جتنا موٹا عضو تناسل تھا اس حبشی کا۔ عائشہ اس کے عضو تناسل پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ حبشی کو شاید بہت جلدی تھی۔ اس نے عائشہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر ہلکا سا نیچے کی طرف دبایا۔ عائشہ سمجھ گئی کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ اس نے منہ جھکا کر حبشی کے عضو تناسل کا اگلا حصہ منہ میں لیا۔ نمکین ذائقہ اس کی زبان کو بھلا لگا اور وہ چوسنے لگی۔ عضو تناسل موٹا ہونے کی وجہ سے اسے پورا منہ کھولنا پڑ رہا تھا اور وہ صرف عضو تناسل کا اگلا حصہ ہی منہ میں لے پائی تھی۔ حبشی کیلئے یہ کافی نہیں تھا۔ اس نے عائشہ کے سر پر ہاتھ رکھا ہوا تھا اور دباؤ بڑھائے جا رہا تھا۔ عائشہ پوری کوشش کر رہی تھی کہ زیادہ سے زیادہ منہ میں لے سکے لیکن جب حبشی کا عضو تناسل اس کے حلق تک پہنچا تو اسے ابکائی آنا شروع ہو گئی۔
سفیان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اسے لگتا تھا جیسے وہ اندر سے مر چکا ہو۔ مرجھائی ہوئی آنکھوں سے کبھی وہ اپنی بیوی کو حبشی کا عضو تناسل چوستے ہوئے دیکھتا تو کبھی نظریں جھکا کر بیٹھ جاتا۔ حبشی کی نظریں البتہ جب بھی سفیان پر پڑتیں، اس کے جذبات میں ایک نیا طلاطم آ جاتا اور وہ عائشہ کا سر اپنے عضو تناسل پر مزید زور سے دباتا۔ عائشہ کے ہونٹوں کی دونوں اطراف سے تھوک بہہ رہا تھا اور غوں غوں کی آوازیں اب کمرے میں گونج رہی تھیں۔ حبشی نے بھانپ لیا کہ اگر اس نے مزید زور لگایا تو عائشہ کو الٹی آ جائے گی۔ اس نے مزید زور لگانے کی بجائے اہنے ہاتھ عائشہ کے سر پر سے اٹھا لئے اور عائشہ کے منہ سے اپنا عضو تناسل نکال کر عائشہ کے گال پر اہنے عضو تناسل سے ایک ہلکا سا تھپڑ لگا دیا۔ عائشہ کے منہ سے بے اختیار ہنسی نکل گئی لیکن اس نے فوراً ہی منہ بند کر لیا کیونکہ اس کی نظر سفیان پر جا ٹکی تھی اور اسے پتہ تھا کہ وہ بیچارا پہلے ہی پچھتا رہا ہے۔