Language:

Search

عمرہ ہنی مون 2

  • Share this:

آنکھوں میں آنسو لئے زبان پر لبیک کا ورد جاری رہا۔ رش مزید بڑھ گیا تھا اور عائشہ کے بالکل پیچھے ایک لمبا چوڑا افریقی مسلمان مرد تھا۔ عائشہ خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ چکی تھی اور مسلسل اللہ کے کلام کا ورد کئے جا رہی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ بے بس ہے لیکن اللہ بے بس نہیں اسلئے اللہ کے حضور دل سے دعائیں کر رہی تھی۔
ہو سکتا ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی کوئی مصلحت ہو۔
بس یہی سوچ کر عائشہ سب برداشت کرتی رہی۔ حتیٰ کہ جب اسے واضح طور پر محسوس ہونے لگا کہ اس کے پیچھے موجود مرد اپنے ہاتھوں سے اس کے جسم کو چھونے کے بعد اب اپنے عضو تناسل کو عائشہ کے کولہوں کے درمیان رگڑ رہا ہے، وہ تب بھی کچھ نہ بولی۔ بس آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی جاری رہی۔ یہ بات نہیں کہ سفیان عائشہ سے بالکل بے نیاز تھا۔ اس نے عائشہ کا ہاتھ تھام رکھا تھا اور کئی مرتبہ اس کی طرف دیکھا بھی تھا۔ عائشہ کے رونے کو وہ خانہ کعبہ کی عقیدت سے منسوب کر کے خود بھی آنکھیں بھگو بیٹھا تھا۔ اسے کیا معلوم تھا کہ عائشہ جن لمحات سے مسلسل گزر رہی ہے وہ اس کے دل و دماغ میں بھونچال پیدا کئے ہوئے ہیں۔
حجر اسود تک پہنچنے تک وہ افریقی مرد عائشہ کے بالکل پیچھے ہی رہا اور اس کے جسم سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ کبھی ہاتھوں سے کولہوں کو زور سے دباتا تو کبھی اپنا عضو تناسل عائشہ کے کولہوں کی دراڑ میں پھنسا کر رگڑنے لگتا۔ کبھی اپنی انگلی عائشہ کے کولہوں کے درمیان سے گزار کر اس کی اندام نہانی تک لے جاتا۔
حجر اسود پر بے تحاشا رش تھا اور لوگ اس مقدس پتھر کو چومنے کیلئے ایسے دھکم پیل کر رہے تھے جیسے ان کی تمام مشکلات کا حل یہ پتھر ہی ہے۔ سفیان عائشہ کا ہاتھ تھامے اسے کھینچنے لگا۔ ایسے رش میں سے گزرنا کوئی آسان کام نہیں خصوصاً جب اکثریت مردوں کی ہو۔ آگے پیچھے دائیں بائیں ہر طرف سے کوئی نہ کوئی مرد اسے چھو رہا تھا۔ ایسے میں جب وہ حجر اسود کا بوسہ لینے کیلئے جھکی تو پیچھے سے نہ جانے کس نے اس کی اندام نہانی میں احرام کے اوپر سے ہی انگلی گھسا دی۔ عائشہ ایک دم سے سیدھی کھڑی ہو گئی اور مڑ کر دیکھنا چاہتی تھی لیکن سفیان، جو عائشہ پر گزرنے والی کیفیات سے بے خبر تھا، نے عائشہ کو اپنی جانب کھینچا تاکہ رش سے نکل کر دونوں طواف مکمل کر لیں۔ حجر اسود کے مقام پر باقی جگہوں سے کہیں زیادہ رش تھا۔
دوران طواف عائشہ کو مسلسل جنسی ہراسانی کا سامنا رہا اور جیسے تیسے وہ سب برداشت کرتی رہی لیکن عبادات سے فارغ ہو کر جب وہ ہوٹل پہنچے تو اس کی برداشت جواب دے گئی۔ سفیان کے گلے لگ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ سفیان حیران تھا کہ یہ عائشہ کو کیا ہو گیا ہے۔ اس نے عائشہ کو چپ کروانے کی کوشش کی لیکن عائشہ کا رونا تھمنے میں ہی نہیں آ رہا تھا۔ کتنی ہی دیر وہ ایسے پھوٹ پھوٹ کر روئی۔ اتنی شدت سے تو کوئی اپنے والد کی وفات پر بھی نہیں روتا ہو گا۔ بلاآخر جب اس کا رونا ذرا کم ہوا تو سفیان نے پوچھا کہ وجہ کیا ہے۔ عائشہ بتانا تو چاہتی تھی لیکن اسے ڈر تھا کہیں سفیان اس بات کا برا نا مان جائے کہ اسی وقت کیوں نہیں بتایا۔ عائشہ نے بات گول کرنے کیلئے کہہ دیا گھر یاد آ رہا ہے۔ سفیان کو عائشہ کی بات پر یقین آ گیا کیونکہ پہلی بار گھر سے اتنی دور آئی تھی اور نئی نئی شادی تھی۔ گھر یاد آنا تو قدرتی بات تھی۔
سفیان نے گھر فون ملا کر عائشہ کی بات کروائی جس سے عائشہ کی توجہ گزرے واقعات سے ہٹ گئی اور موڈ قدرے فریش ہوا۔
دن بھر کی تھکن کی وجہ سے سفیان کو سونے میں دیر نہ لگی۔ عائشہ البتہ جاگ رہی تھی۔ طواف کے دوران پیش آئے واقعات اس کے ذہن میں کسی فلم کی طرح چل رہے تھے اور وہ سوچے بنا نہ رہ سکی کہ آخر کیوں ایسا ہو۔ اسے اس بات میں کوئی شک نہیں تھا کہ وہ کوئی پہلی لڑکی نہیں جس کے ساتھ یہ ہوا بلکہ یقیناً اکثر خواتین کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہو گا۔ کاش باقی جگہوں کی طرح خانہ کعبہ میں بھی مرد اور عورتوں کیلئے علیحدہ طواف کا انتظام ہوتا۔ عائشہ نے سوچا اور سوچتی چلی گئی۔ اس کی سوچ کا دائرہ وسیع سے وسیع تو ہوتا گیا اور ایسی ایسی باتیں اس کے ذہن میں آنے لگیں کہ اگر وہ کسی کو بتاتی تو اس پر کفر کے نہ جانے کتنے فتوے لگ جاتے۔
ساری زندگی اسے یہی پڑھایا گیا تھا یہی سمجھایا گیا تھا سکول میں مسجد میں گھر میں اساتذہ نے اس کے والدین نے اور دیگر شخصیات نے کہ اسلام دنیا کا بہترین مذہب ہے اور اسلام ہمیں برے کاموں سے روکتا ہے۔ وہ سوچنے لگی کہ یا تو خانہ کعبہ جیسی مقدس جگہ پر اس کے جسم کو چھونے والے مسلمان نہیں تھے یا پھر اگر مسلمان تھے تو اسلام نے انہیں روکا کیوں نہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا انہیں اللہ کا کوئی ڈر نہیں تھا؟ اللہ تعالیٰ چاہیں تو انہیں دنیا میں بھی سزا دے سکتے ہیں تو پھر ہمیں ہر مصیبت ہر پریشانی پر یہی کیوں کہا جاتا ہے کہ صبر کرو اللہ آخرت میں اس کا بدلہ لے گا۔ اللہ تعالیٰ کیوں دنیا میں ہی مظلوموں کی مدد نہیں کرتے تاکہ اس سے ظالموں کو بھی سبق ملے اور وہ برے کاموں سے باز رہیں۔ عائشہ کے ذہن میں ہزاروں سوالات تھے پر جواب کسی کا نہیں تھا۔ وہ سوچتی رہی۔ سوچتی رہی اور نہ جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔
 

Quratulain Tahira

Quratulain Tahira