Language:

Search

عمرہ ہنی مون 6

  • Share this:

اس رات مغرب کی نماز کے بعد جائے نماز پر جو کچھ ہوا، وہ عائشہ اور سفیان دونوں کیلئے عجیب تھا۔ دونوں ہی شرمندہ تھے کہ جذبات میں اس قدر آگے نکل گئے کہ اللہ رب العزت کی عبادت کی جگہ پر مباشرت کر بیٹھے۔ دونوں اداس تھے۔ دونوں کو غم تھا کہ جوش میں ہوش کھو بیٹھنے سے کہیں اللہ کے عضب کو دعوت نہ دے دی ہو۔ جائے نماز اٹھا کر رکھ دی تھی۔ دونوں نے کپڑے بھی پہن لئے تھے لیکن طبیعت میں عجیب اداسی تھی۔ دونوں بستر پر لیٹے چھت کو گھور رہے تھے اور اپنی اپنی سوچوں میں مگن تھے۔
سفیان کو شرمندگی تو تھی لیکن وہ جائے نماز پر گزرے لمحات کو بھی ذہن سے نہیں نکال پا رہا تھا جب عائشہ کتیا بنی ہوئی تھی اور وہ پیچھے سے دھکے پر دھکا لگا رہا تھا۔ لحاف کے نیچے اس کا عضو تناسل پھر سے سخت ہونے لگا لیکن پھر اچانک اسے احساس ہوا کہ یہ غلط ہے۔ ایسے کاموں میں لطف اپنی جگہ لیکن دینی معاملات میں اس کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ بار بار اس کی سوچ جائے نماز پر کئے سیکس کی جانب مبذول ہوتی اور وہ بار بار زبردستی اپنی سوچ کو کسی اور طرف لگانے کی ناکام کوشش کرتا۔ پتہ نہیں کیوں اس میں اتنی لذت تھی۔ اتنا مزہ تھا۔ سفیان نے سوچا جو ہونا تھا ہو گیا، اس بارے میں تو اب کچھ نہیں کیا جا سکتا سوائے معافی کے۔ آئندہ وہ ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ لیکن جب بار بار آنکھوں کے سامنے لبیک اللہم لبیک کی صداؤں میں عائشہ کی آہ آہ آتی تو اس کا عضو تناسل لوہے کی مانند سخت ہو جاتا۔
عائشہ کے دل میں بھی افسوس تو تھا لیکن سفیان سے کم۔ وہ کچھ اور ہی سوچ رہی تھی۔ بیشک ان دونوں نے جو کیا تھا وہ گناہ ہی تھا لیکن کیا یہ گناہ خانہ کعبہ کے سامنے لڑکیوں عورتوں کے جسم چھونے سے زیادہ بڑا گناہ تھا۔ کیا ان لوگوں کو اللہ نے کوئی سزا دی جنہوں نے عائشہ کو ان جگہوں پر بھی چھوا تھا جہاں صرف شوہر کو ہی چھونے کی اجازت ہوتی ہے۔ جس ڈھٹائی سے اسے چھوا گیا تھا، عائشہ کو یقین تھا کہ ایسا کرنے والا کوئی عادی مجرم تھا۔ اور وہ کوئی ایک تو نہیں تھا۔ نہ جانے کتنے تھے۔ اگر اللہ نے انہیں کچھ کہا تو جائے نماز پر سیکس کرنے پر بھی کوئی سزا نہیں ملنی چاہیے۔ عائشہ نے ہمیشہ یہی پڑھا اور سنا تھا کہ اللہ انصاف کرنے والا ہے تو انصاف کا تقاضا تو یہی تھا کہ ہر جرم کی سزا اس کے مطابق ہو۔ یہ تو کوئی انصاف نہ ہوا کہ خانہ کعبہ میں جنسی ہراسانی کے مجرم سر عام دندناتے پھریں اور اپنا قبیح فعل جاری رکھیں اور عائشہ اور سفیان کو محض جائے نماز پر سیکس کی وجہ سے سزا دی جائے۔ جتنا عائشہ سوچتی جاتی تھی اتنا ہی اسے اپنا فعل کم برا محسوس ہوتا تھا۔ دل سے اداسی چھٹنے لگی اور وہ سوچنے لگی کہ جو کام ان دونوں نے کیا ہے وہ ہر گز ہر گز گناہ نہیں ہو سکتا کیونکہ نہ تو انہوں نے کسی کا دل دکھایا نہ کسی کو تنگ کیا۔ سیکس ہی تو کیا تھا۔ سیکس کرنا کوئی اتنا بڑا جرم تو نہیں۔ بیشک جائے نماز پر ہی کیوں نہ کیا جائے۔ عائشہ نے منہ پھیر کر سفیان کی طرف دیکھا۔ سفیان کی آنکھیں بند تھیں لیکن اسی لمحے اس نے آنکھیں کھول دیں اور جلدی سے اٹھ کر غسل خانے کی طرف دوڑا۔
دراصل جب سفیان چاہنے کے باوجود گزرے لمحات کو ذہن سے نہ جھٹک پایا تو اس نے سوچا تھا کہ غسل خانے میں جا کر مشت زنی کر لینا ہی بہتر ہے۔ یہ محض اتفاق ہی تھا کہ عائشہ نے بھی اسی لمحے سفیان کی طرف منہ کیا تھا جب وہ غسل خانے کی طرف جانے کیلئے بستر سے اٹھا تھا۔
مشت زنی کیلئے عضو تناسل ٹراؤزر سے باہر نکال کر ہاتھ میں تھاما اور آنکھیں بند کر کے ہلانے لگا۔ سخت تو پہلے ہی تھا، اب جب ہلایا تو ڈسچارج ہونے میں ایک منٹ سے کم وقت لگا۔ جلدی سے دھو کر اسے ٹراؤزر کے اندر کیا اور واپس بستر میں آ کر لیٹ گیا۔ ڈسچارج ہونے پر سفیان کی ساری ہوشیاری ہوا ہو گئی تھی اور احساس ندامت پھر سے غالب آنے لگا تھا۔
عائشہ نے ایک بار پھر مڑ کر دیکھا اور سفیان کے چہرے پر ہوائیاں اڑی دیکھ کر پریشان ہو گئی۔ اسے فکر تھی کہ سفیان جائے نماز والے واقعے کو دل پر لے کر کہیں کوئی ایسا کام نہ کر بیٹھے جس کا مداوا ممکن نہ ہو۔ مثلاً اگر کسی کو بتا بیٹھا تو بھی کام خراب ہو سکتا تھا۔ عائشہ خود تو واضح تھی اور یہ سمجھ بیٹھی تھی کہ انہوں نے ایسا کوئی کبیرہ گناہ نہیں کیا کہ جس پر اللہ تعالیٰ غیض و غضب میں آ جائیں لیکن یہ بات اب سفیان کو سمجھانا تھی اور عائشہ کو صرف ایک ہی ڈر تھا کہ کہیں سفیان اس کی بات کا غلط مطلب نہ لے لے اور اس سے ناراض نہ ہو جائے۔
 

Quratulain Tahira

Quratulain Tahira